شیوراج سنگھ چوہان ‘ مستقبل غیریقینی

   

بی جے پی نے اپنے اعلی ترین پالیسی ساز ادارہ سے مرکزی وزیر نتن گڈکری کے علاوہ چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان کو بھی خارج کردیا ہے ۔ ایک پیام جو اس طرح کی کارروائیوں سے دینے کی کوشش کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ بی جے پی میں اگر کسی کی اہمیت ہے تو وہ صرف وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی ہی ہوسکتی ہے ۔ دوسرا لیڈر چاہے جتنے بھی مرتبہ والا ہو کتنا بھی سینئر کیوں نہ ہو اس کو اپنی حدوں میں رہنے کی ضرورت ہوگی ۔ اگر کوئی لیڈر کوئی حد پار کرتا ہے تو اسے حاشیہ پرکرنے سے گریز نہیں کیا جائیگا ۔ نتن گڈکری کو نظر انداز کرتے ہوئے جہاں خود انہیںپیام دیا گیا ہے وہیں آر ایس ایس کو بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس کے اشاروں پر کسی کو بھی کبھی بھی ذمہ داری پر برقرار رکھنا لازمی نہیں ہے اور پارٹی جب چاہے جو چاہے فیصلہ کرسکتی ہے ۔ شیوراج سنگھ چوہان کا جہاں تک معاملہ ہے تو یہ دعوے کیا جا رہا ہے کہ مدھیہ پردیش میں آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل مسٹر چوہان کو بھی پیام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کا سیاسی قد کتنا ہے ۔ مدھیہ پردیش کے تعلق سے کہا جاتا رہا ہے کہ شیوراج سنگھ چوہان ریاست میں قد آور سیاسی لیڈر ہیں اور ایک موقع پر ان کا تقابل نریندر مودی سے کیا گیا تھا ۔ اس وقت نریندر مودی گجرات کے اور شیوراج سنگھ چوہان مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر تھے ۔ کارکردگی کے معاملہ میں مسٹر چوہان کو سبقت دی جا رہی تھی ۔ تاہم ہندوتوا طاقتوں کے ذریعہ نریندر مودی نے مرکز میں ذمہ داری سنبھال لی اور وہ ملک کے وزیراعظم بن گئے ۔ پارٹی پر ان کی اور امیت شاہ کی گرفت اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ اب کوئی بھی پارٹی لیڈر اپنے آپ کو اس میں آزاد نہیں سمجھ رہا ہے ۔ ان کے لئے ایک فارمولہ طئے کردیا گیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کی اور امیت شاہ کی ستائش کرتے رہیں اور ان کے فیصلوں پر کسی طرح کی مخالفانہ رائے کا اظہار نہ کیا جائے ۔ آزادانہ بیان بازی پہلے تو پارٹی عہدوں سے انہیں محروم کرے گی اور پھر ہوسکتا ہے کہ اگر وہ حکومت میں ہیں تو انہیں اس سے بھی دور کردیا جائے ۔
مدھیہ پردیش میںآئندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ کانگریس پارٹی اس بار بھی پوری طاقت سے مقابلہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے ۔ شیوراج سنگھ چوہان کے خلاف پارٹی زبردست مہم چلا رہی تھی ۔ یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ شیوراج کو 2023 میں اقتدار سے محروم ہونا پڑے گا اور پھر وہ مرکز میں کوئی جائے پناہ تلاش کرسکتے ہیں۔ تاہم اب کانگریس نے اپنی تنقیدوں میں مزید شدت پیدا کرتے ہوئے چیف منسٹر اور پارٹی میں دوریوں کو واضح کرنا شروع کردیا ہے ۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے اب مسٹر چوہان سے قطع تعلق کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور یہ پیام دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کیلئے اب کسی اہم عہدہ پر کوئی جگہ نہیں ہوگی چاہے وہ مرکز میں ہو ریاست میں ہو۔ حالانکہ بی جے پی شیوراج سنگھ چوہان کی بی جے پی کے پالیسی ساز ادارہ سے علیحدگی کو اہمیت نہیں دے رہی ہے لیکن مدھیہ پردیش کے سیاسی حلقوں میں اس کے اثرات ضرور دکھائی دینے لگے ہیں۔ خود شیو راج سنگھ چوہان کے قریبی حلقوں میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اس فیصلے کے ذریعہ پارٹی کی مرکزی قیادت نے شیوراج سنگھ کے مستقبل کو غیر یقینی کیفیت سے دوچار کردیا ہے ۔ یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ اگر بی جے پی کا اقتدار برقرار رہ بھی جائے تب بھی شیوراج سنگھ چوہان کو اس عہدہ پر برقرار نہیں رکھا جائیگا بلکہ پارٹی ریاست میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو ذمہ داری دینے کے تعلق سے بھی غور کرسکتی ہے ۔
آئندہ پارلیمانی انتخابات میں اپنے امکانات کو مستحکم کرنے کیلئے بی جے پی کی اعلی قیادت کی جانب سے اس طرح کے فیصلے اور اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن ریاستی سطح پر اس کے جو اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ان پر سیاسی حلقوںمیں چہ میگوئیاں کی جا رہی ہیں۔ یہ بات تو طئے ہے کہ اس طرح کے فیصلوں کے ریاستی سطح پر اثرات یقینی طور پر مرتب ہوسکتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ ان سے نمٹنے کیلئے بی جے پی کیا حکمت عملی اختیار کرے گی ۔ کس طرح سے قد آور سیاسی قائدین اور ان کے حامیوں کو قابو میں رکھا جائیگا ۔ ان کے ذہنوں سے یہ سوال کس طرح سے نکالا جاسکے گا کہ ان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا ؟ ۔