شیوسینا ،بی جے پی کی پرچھائیوں سے نکلنے بے تاب

,

   

مہاراشٹرا میں تشکیل حکومت کیلئے جاری تعطل کی بڑی وجہ، وزیراعظم مودی کے دور میں بی جے پی کو عروج

ممبئی ۔ 5 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) مہاراشٹرا میں تشکیل حکومت کیلئے بی جے پی اور شیوسینا میں رسہ کشی جاری ہے۔ دونوں حلیف جماعتیں مطلوبہ ارکان کی تعداد حاصل کریں گے یا نہیں اس کے برخلاف ایک بات واضح ہیکہ شیوسینا، بی جے پی کے سائے سے باہر نکلنا چاہتی ہے۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے روایتی طور پر دونوں کے اتحاد میں اس کا 2014ء تک بڑے بھائی کا رول تھا جس وقت بی جے پی اچانک نریندر مودی کی زیرقیادت ابھری اور پھر اس نے غلبہ حاصل کرلیا۔ 1990ء سے مہاراشٹرا اسمبلی کے ہر الیکشن میں بی جے پی اور شیوسینا کے ووٹوں کے تناسب کا جائزہ لیں تو شیوسینا کی حصہ داری مسلسل تقریباً 16-20 فیصد رہی ہے جبکہ بی جے پی کی 10.7 فیصد رہی جو 1990ء میں شیوسینا سے پانچ فیصد سے کم ہے۔ اس کی وجہ پارٹی نے کم نشستوں پر مقابلہ کیا تھا۔ 2014ء میں بی جے پی کے ووٹ شیئر میں 27.8 فیصد تک اضافہ ہوگیا جب دونوں نے علحدہ طور پر انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ اس کے بعد بی جے پی نے فرنویس کو اپنا پہلا چیف منسٹر بنایا تھا اور شیوسینا دوسرے نمبر پر چلی گئی تھی۔ حالیہ انتخابات میں شیوسینا نے 124 نشستوں پر مقابلہ کیا جو بی جے پی سے 40 کم ہے۔ اس طرح بی جے پی کا ووٹ شیئر 25.8 فیصد رہا جو شیوسینا سے 9 فیصد پوائنٹ زیادہ ہے۔

1999ء میں بی جے پی اور شیوسینا کے تناسب میں زیادہ فرق نہیں تھا جو بالترتیب 42.9 فیصد اور 47.9 فیصد رہا اور محض 5 فیصد پوائنٹس کا فرق رہا لیکن اس کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ 2014ء میں جب دونوں نے علحدہ طور پر الیکشن میں حصہ لیا تھا اس وقت بی جے پی کو ان حلقوں میں آدھے سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی جن پر اس نے مقابلہ کیا تھا جبکہ شیوسینا کو ایک چوتھائی نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ حالیہ انتخابات میں بھی دونوں کا یہ فرق 19 فیصد پوائنٹس رہا۔ 2014ء کے بعد مودی کی زیرقیادت بی جے پی کامیابی سے شہری علاقوں میں پارٹی کا غلبہ ہوگیا۔ بی جے پی کی کامیابی کی ایک اور وجہ طبقاتی عنصر ہے۔ پارٹی نے مراٹھا۔ کنبی ووٹوں پر سینا کے مقابلے کم انحصار کیا۔ 1990ء سے بی جے پی مسلسل مہاراشٹرا او بی سیز پر اپنا موقف مستحکم کررہی ہے جبکہ اعلیٰ ذات، شہری گجراتی آبادی اور مارواڑی ووٹ اس کی روایتی طاقت رہے ہیں۔ پارٹی کے فروغ میں گوپی ناتھ منڈے، ونود تاوڈے، ایکناتھ کھڑسے اور پنکج منڈے وغیرہ جیسے او بی سی قائدین نمایاں ہیں۔ ساتھ ہی بی جے پی نے آدی واسیوں اور دلتوںکو بھی اپنی جانب راغب کیا اور2014 ء میں پارٹی ریاست میں ابھر کر آئی۔ اپنے تنظیمی ڈھانچہ میں کمزوریوں کے باعث شیوسینا یہ مقام حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ دونوں جماعتوں میں نظریاتی فرق بھی اہم پہلو ہے۔ 1990ء اور 2000ء کے دہوں میں اٹل بہاری واجپائی کی زیرقیادت بی جے پی اعتدال پسند ہندوتوا پارٹی سمجھی جاتی تھی جبکہ بال صاحب ٹھاکرے کی زیرقیادت شیوسینا کو سخت گیر ہندوتوا پارٹی تصور کیا گیا۔ اس وجہ سے بی جے پی کے مقابل ریاست میں شیوسینا کو اپنا غلبہ برقرار رکھنے میں مدد ملی۔ بال صاحب ٹھاکرے کی 2012ء میں موت کے بعد قومی سیاست کے منظر میں نریندر مودی ابھر کر آئے۔ دوسری طرف ادھوٹھاکرے اس رول کیلئے فٹ ثابت نہیں ہوئے اور ان کے رشتہ دار بھائی راج ٹھاکرے نے شیوسینا سے علحدگی اختیار کرتے ہوئے 2006ء میں ایم این ایس قائم کرلی۔ گذشتہ پانچ برسوں میں ادھو ٹھاکرے نے ہندوتوا کا وہ مقام مودی سے چھیننے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ جب یہ محسوس ہوگیا کہ اس گیم میں بی جے پی کو ہرانا مشکل ہے تو شیوسینا ادتیہ ٹھاکرے کے تحت مستحکم قیادت کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہی ہے۔ 2004ء میں 17.9 فیصد عوام سینا اور 14.4 فیصد بی جے پی کی تائید میں تھے لیکن 2009ء میں یہ تناسب تقریباً مساوی ہوگیا تھا۔ 2014ء میں کانگریس بہت حد تک کمزور پڑ گئی اور اس وقت شیوسینا نہیں بلکہ بی جے پی نے اس خلاء کو پُر کیا تھا۔ سی ووٹر کے ڈاٹا کے مطابق فرنویس چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے 34.7 فیصد عوام کی پسند ہیں۔ قیادت کے اس بحران نے ادھو ٹھاکرے کے فرزند کو پوری قوت سے آگے بڑھانے کیلئے مجبور کردیا۔