فوٹو جرنلسٹ منیب الاسلام کے تصاویر پر مشتمل رنگ وروشنی کی دنیا سے اینٹوں او ربھٹیوں کی دنیا میں منتقلی انتہائی افسوس ناک تھی مگر ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔
ریاست میں 5اگست کے روز جموں اور کشمیر کے خصوصی موقف کو برخواست کرنے کے فیصلے کے پیش نظر وادی میں خاموشی اور انفارمیشن پر امتناعات قائم کرنے کی وجہہ سے اننت ناگ کے ساکن منیب ان کشمیری صحافیوں میں سے ایک ہیں جن کی کھانے پینے کے مشکلات بڑھ گئے ہیں۔
منیب نے ٹیلی گراف کوبتایا کہ ”پچھلے سال میری شادی ہوئی ہے او رمیں والد بننے والا ہوں۔
مجھے اپنی بیوی کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لئے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے مگر نہیں ہوا۔ جسکی وجہہ سے کچھ دنوں کے لئے مزدور کاکام کرنے کے علاوہ کچھ نہیں بچا ہے۔
مگر ان مہینوں میں کئی دنوں تک میں بے روزگار رہاہوں“۔انہوں نے کہاکہ”میں نے مزدور کرتے ہوئے کچھ پیسے کمائے اس کے علاوہ میں نے ان مہینوں میں کچھ کمائی نہیں کی ہے۔ پیشہ کی تبدیلی میرے کافی درد مندتھی مگر میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔
میرے کوخوش ہے کہ میرا چھوٹا بھائی کچھ اچھی رقم کمالیتا ہے جس سے گھر چل رہا ہے مگر اس سے دیگر اخراجات کے لئے پیسے مانگنے کی ہمت میرے پاس نہیں ہے“۔
تیس سالہ منیب ایک گریجویٹ ہے پچھلے سات سال سے فری لانس فوٹو جرنلسٹ کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ان کی تصویریں کئی قومی اخبارات اور دریچوں میں شائع ہوئی ہیں۔
وادی میں مذکورہ میڈیا کو بری مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ موبائیل فون‘ لینڈ لائن اور انٹرنٹ پر امتناعات عائد ہیں۔
لینڈ لائن اور پوسٹ پیڈ موبائیل فون پر سے امتناع ہٹادیا ہے مگر انٹرنٹ اور پری پیڈ موبائیل فون سروس اب بھی بند ہیں۔سری نگر نژاد صحافیوں میڈیا مراکز میں کچھ انٹرنٹ خدمات حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں مگر کشمیر کے
دیگر اضلاعوں میں ا س قسم کی سہولتیں ندارد ہیں جس کی وجہہ سے منیب جیسے لوگوں کے لئے کام کرنا مشکل ہوگیاہے۔
ایک انگریزی روزنامہ کے ایڈیٹر نے بتایا کہ ان کے نصف درجن سے زائد اسٹا ف کو انہوں نے ہٹادیاہے۔
انہوں نے جکہاکہ بہت سارے بڑے اخبارات نے اپنے عملے میں کٹوتی کی ہے مگر صلع کے صحافیوں زیادہ تر بے کار ہیں‘ کیونکہ انٹرنٹ خدمات تک ان کی رسائی نہیں ہورہی ہے۔
اگست سے قبل تک منیب ہر ماہ 15000سے 20000روپئے کی کمائی کرتے تھے۔
انہوں نے کہاکہ ”یہ اب صفر ہوگئی ہے۔ ایک کیب لینا سری نگر میں 1000سے 1500روپئے تک کا مہنگا ہے“