صحت اور فرصت کی نعمتوں کی قدر کریں

   

مرتبہ: عائشہ بتول مرسلہ : سلمہ محمد
فراغت اور فرصت کے اوقات بڑی نعمت ہیں یہ ہمت کو دوبارہ بحال کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے فرصت کے اوقات کو نعمت قرار دیا ہے۔ (ترمذی)دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی بہت سارے لوگ قدر نہیں کرتے۔ صحت اور فرصت۔
حضرت حسن بصریؒ اس نعمت عطیہ کو غنیمت جاننے کے بارے میں فرماتے کہ روزانہ فجر کے وقت اللہ تعالیٰ کا ایک منادی آواز دیتا ہے۔ اے ابن آدم! میں نئی تخلیق ہوں اور تیرے عمل کا گواہ ہوں۔ لہذا عمل صالح کے ذریعے مجھ سے توشہ بنالے کیونکہ پھر میں قیامت تک دوبارہ نہیں آؤں گا۔
وقت کی قدر: جب کسی اچھے کام کرنے کا ارادہ کرو تو اسے کر گزرو یہ مت کہو کہ کل کرلوں گا۔ وقت تو بادلوں کی طرح گزر جاتا ہے۔ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک زمانے قریب نہ آجائیں۔ ایک سال ایک مہینہ کے برابر ہوجائے گا۔ مہینہ ایک جمعہ کے برابر، جمعہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک لمحہ کے برابر اور ایک لمحہ ایک آگ کے انگارے جتنا ہوجائےگا۔ (مسند احمد)
غافل لوگوں کے لیے وعید آئی ہے:’’آپ (غمگین نہ ہوں) انہیں چھوڑ دیجیے وہ کھاتے (پیتے) رہیں اور عیش کرتے رہیں اور (ان کی) جھوٹی امیدیں انہیں (آخرت سے) غافل رکھیں پھر وہ عنقریب (اپنا انجام) جان لیں گے۔‘‘ (سورۃالحجر)
تفسیر قرطبی سے علامہ قرطبیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر کیا ہے کہ لمبی امیدیں ایک لاعلاج اور دائمی مرض ہے جب یہ دل میں بیٹھ جاتا ہے تو مزاج خراب اور علاج سخت ہوجاتا ہے اس سے نہ بیماری دور ہوتی ہے نہ ہی کوئی دوا کامیاب۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے: ’’اس امت کے اولین لوگوں کی درستگی زہد اور یقین سے ہوئی اور اس کے آخری لوگوںکو بخل اور امید سے ہلاک کردیا جائے گا۔‘‘حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے تھے۔ مجھے ایسی ندامت کبھی نہیں ہوتی جیسی ندامت مجھے اس دن پر ہوتی ہے جس کا سورج غروب ہو اور میری عمر کا وقت کم ہوجائے مگر اس میں میرا عمل زائد نہ ہوا ہو۔علامہ ابن جوزیؒ اپنی کتاب نقعۃ الکبد فی نصیحۃ الولد میں بیان فرماتے ہیں۔ اے میرے بیٹے جان لو یہ ایام چند ساعات پر مشتمل ہیں اور ساعت کچھ سانسوں پر اور ہر سانس ایک خزانہ ہے اس لیے اس بات سے ہوشیار رہنا کہ کوئی سانس بغیر کچھ کام کئے گزار دو ورنہ قیامت میں اپنا خزانہ خالی دیکھ کر تمہیں ندامت ہوگی۔ ہر لمحہ کو دیکھو وہ کیا لے جارہا ہے لہذا اس لمحے کو بہتر سے بہتر کام کے ساتھ رخصت کرو اور اپنے نفس کو مہلت مت دینا بلکہ اسے عادت ڈالو کہ وہ اچھے اعمال اور نیکیاں کرے۔ اپنی قبر کے صندوق میں اپنے لیے وہ کچھ بھیجو جو جب تم کو ملے تو اس سے خوشی حاصل ہو۔ کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے فارغ وقت کو قرآن حکیم کا کچھ حصہ زبانی یاد کرنے یا دینی مجلسوں میں گزارو کیونکہ نیک صحبت، قرآن اور دینی اجتماع پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں کچھ لوگ جمع ہوکر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے اور اس کو ایک دوسرے کو سکھاتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے رحمت انھیں ڈھانپ لیتی ہے فرشتے انھیں گھیرے رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاس موجودہ لوگوں میں ان کا تذکرہ کرتا ہے۔ (مسلم شریف)
سلف صالحین کا معمول: صحابہ کرامؓ اور اس وقت کے علماء وقت کی قدر کرتے تھے ، ان کے واقعات درج ذیل ہیں:حضرت عبداللہ بن عمر العاص ؓ اپنے بارے میں فرماتے ہیں میں نے قرآن جمع کرلیا اور ایک رات میں پورا پڑھ لیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ آگے کے وقت میں جب ٹائم زیادہ لگے گا تو تم بیزار سے ہوجاؤ گے اس لیے مہینہ میں ایک مرتبہ پڑھاکرو تو میں نے گزارش کی مجھے اپنی قوت اور جوانی کا فائدہ اٹھانے دیجیے تو آپ ﷺ نے فرمایا پھر دس دن میں ایک قرآن ختم کیا کرو۔ میں نے پھر وہی گزارش کی تو فرمایا کہ سات دن میں پڑھا کرو میں نے پھر وہی گزارش کی تو آپ ﷺ نے مزید کمی کرنے سے انکار کردیا۔(ابن ماجہ)