صحت کی ایک بڑی دشمن زیادہ بیٹھنے کی عادت

   

نیویارک: امریکی انسٹیٹیوٹ فار میڈیسن اینڈ پبلک ہیلتھ کے ایک سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آج کل کئی لوگ ایک ہفتے میں 56گھنٹے یعنی تقریباً ڈھائی دن گملے میں لگے پودے کی طرح ساکت و جامد زندگی گزارتے ہیں۔یہ چھپن گھنٹے یا تو وہ اپنے کمپیوٹر اسکرین کے سامنے ماؤس اور کی بورڈ سے کھیلتے ہوئے یا گاڑی کی ڈرائیونگ کے دوران اسٹیرنگ وہیل کو گھماتے ہوئے یا صوفے میں دھنس کر ٹیلی ویڑن اسکرین سے آنکھیں چار کرتے ہوئے صرف کرتے ہیں۔تقریباً چھ ہزار دس افراد پر مشتمل سروے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خواتین،مردوں کے مقابلے میں زیادہ غیر متحرک (Sedentary) زندگی گزار رہی ہیں کیونکہ انہیں گھر سے باہر کھیلے جانے والے اسپورٹس سے کم ہی دلچسپی ہوتی ہے۔اگر وہ کام پر جاتی بھی ہیں تو ان میں زیادہ بھاگ دوڑ اور محنت مشقت کا کام نہیں ہوتا۔ہو سکتا ہے بعض لوگ اپنے بارے میں یہ گمان کریں کہ ان کی زندگی بڑی چاق و چوبند اور سرگرم ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر افراد دن کا بڑا حصہ بیٹھ کر گزارتے ہیں۔ہمارا یہ طرز عمل ہمیں بیمار ڈال رہا ہے۔اس کی صورتیں البتہ مختلف ہیں۔کہیں وہ موٹاپے کی صورت میں نظر آتی ہے،کہیں دل کی بیماریوں کے روپ میں اور کہیں ذیابیطس کی حالت میں۔دور جدید کے یہ تمام رویے اتنے زیادہ غیر صحت مند ہیں کہ طبی علوم میں ایک نئی اصطلاح Inactivity Physiology اختراع کی گئی ہے۔اس میں ہماری مستقل بیٹھنے کی عادت اور جدید ٹیکنالوجی کے سہارے زندگی گزارنے کے طور طریقوں کے اثرات کا احاطہ کیا جاتا ہے۔یہ مہلک رجحان ایک عالمگیر وبا کا رْخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔اسے ریسرچرز نے ’’بیٹھنے کی بیماری‘‘ (Sitting Disease) کا نام دیا ہے۔