تقرر کو ایک ماہ مکمل، کویتا کا انتظار، مسلمان اپنے مسائل پیش کرنے کیلئے بے چین
حیدرآباد۔/5اپریل، ( سیاست نیوز) تلنگانہ کے اقلیتی طبقات اپنے مسائل کے حل کیلئے اقلیتی کمیشن کے دفتر کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن تقرر کا ایک ماہ گذرنے کے باوجود صدرنشین اور ارکان نے جائزہ حاصل نہیں کیا۔ اقلیتوں کو حکومت سے کئی مسائل درپیش ہیں خاص طور پر اقلیتی بہبود کی اسکیمات پر عمل آوری میں ناکامی اہم مسئلہ ہے۔ اقلیتی فینانس کارپوریشن سے سبسیڈی پر مبنی قرض کی فراہمی اسکیم کیلئے 2 لاکھ 60 ہزار سے زائد درخواستیں داخل کی گئیں اور مارچ میں قرض فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن آج تک استفادہ کنندگان کا انتخاب مکمل نہیں ہوا ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے غریب مسلمان اقلیتی فینانس کارپوریشن کی سبسیڈی کے انتظار میں ہیں۔ اس کے علاوہ اوورسیز اسکالر شپ اسکیم اور فیس باز ادائیگی اسکیمات پر عمل آوری ٹھپ ہوچکی ہے۔ حال ہی میں میدک ضلع میں قدیر خاں نامی نوجوان کو پولیس نے اذیت کے ذریعہ ہلاک کردیا آج تک قدیر خاں کے پسماندگان کو انصاف نہیں ملا اور نہ ہی خاطی پولیس عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ تلنگانہ میں 4 فیصد مسلم تحفظات پر عمل آوری کا مسئلہ بھی الجھن کا شکار ہے۔ حکومت کے روسٹر پوائنٹس میں مسلم تحفظات کو 4 سے گھٹا کر 3 فیصد کردیا گیا ہے۔ اقلیتوں کے نام پر قائم کئے گئے اقامتی اسکولوں کی ابتر صورتحال اور غیر مسلم اسٹاف کے تقررات کے نتیجہ میں مسلم طلبہ کی مشکلات میں اضافہ ہوچکا ہے۔ ہندو اسٹاف کی جانب سے اقامتی اسکولوں میں ہندو کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے اور باقاعدہ پوجا کیلئے خصوصی کمرہ مختص کردیا گیا۔ اقامتی اسکولوں پر حکومت کی کوئی نگرانی نہیں ہے جس کا واضح ثبوت ایک طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کے ذریعہ اسے حاملہ بنانے کا واقعہ موجود ہے۔ ان تمام مسائل پر مسلمان اور مسلمانوں کی مختلف تنظیمیں اور جہد کار اقلیتی کمیشن سے رجوع ہونے کیلئے بے چین ہیں لیکن افسوس کہ اقلیتی کمیشن کا دفتر تو موجود ہے لیکن سماعت کیلئے صدرنشین موجود نہیں ہیں۔ حکومت نے 3 مارچ کو صدرنشین کے عہدہ پر طارق انصاری کا تقررکیا جبکہ دوسرے دن تین ارکان کا تقرر کیا گیا۔ ایک ماہ مکمل ہوچکا ہے لیکن صدرنشین کو رکن کونسل کویتا کے اپواینٹمنٹ کا انتظار ہے۔ وہ کویتا کی موجودگی کے بغیر جائزہ لینے کیلئے تیار نہیں ہیں جبکہ کویتا ای ڈی کی تحقیقات میں الجھی ہوئی ہیں۔ کمیشن کے صدرنشین کا عہدہ دستوری نوعیت کا ہے اور سیاسی امور سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ لہذا صدرنشین اور ارکان کو سیاسی قائدین کے بغیر ہی مسلمانوں کے مسائل کی سماعت کیلئے فوری طور پر جائزہ لینا چاہیئے۔ صدرنشین اپنی ذمہ داری سنبھالے بغیر وزراء اور عوامی نمائندوں کے مکانات پر خیرسگالی ملاقات اور افطار کی دعوتوں میں شرکت اور تہنیت قبول کرنے میں مصروف ہیں جبکہ دوسری طرف مسلمان اپنے مسائل کو رجوع کرنے کیلئے بے چین ہیں۔ر