صدرنشین وقف بورڈ کے خلاف صدر مجلس کی اچانک مہم پر شبہات

,

   

سیاسی حلقوں اور عوام میں موضوع بحث، مساجد کے مسئلہ پربورڈ میں قرارداد کی منظوری،شخصی مخاصمت اختلاف کی اہم وجہ؟
حیدرآباد۔ تلنگانہ وقف بورڈ ان دنوں رکن پارلیمنٹ حیدرآباد اسد اویسی کے نشانہ پر ہے۔ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلہ میں وقف بورڈ کی کارکردگی یقینا اطمینان بخش نہیں کہی جاسکتی لیکن جس انداز میں وقف بورڈ کے صدرنشین محمد سلیم کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس سے سیاسی حلقوں اور عوام میں کئی شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ رکن پارلیمنٹ جو ایک سال قبل تک خود وقف بورڈ کے رکن تھے اسوقت کبھی بھی صدرنشین کی برخواستگی یا بورڈ کی تحلیل کا مطالبہ نہیں کیا یعنی جس وقت صدر مجلس بورڈ کے رکن تھے صدر نشین وقف بورڈ کی کارکردگی اطمینان بخش تھی لیکن جیسے ہی وہ وقف بورڈ کے رکن کی حیثیت سے باقی نہیں رہے صدر نشین نااہل دکھائی دینے لگے ہیں۔ آخر ایک سال کی مدت میں ایسا کیا ہوگیا کہ وقف بورڈ صدرنشین اور بورڈ کی برخواستگی ضروری سمجھی جارہی ہے۔ لوک سبھا کی تحلیل کے بعد صدر مجلس کی رکنیت وقف بورڈ سے از خود ختم ہوگئی تھی اور ان کے دوبارہ انتخاب کے بعد اس زمرہ کو پُر کرنے الیکشن شیڈول جاری کیا گیا تھا لیکن یہ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا جس کے سبب ایم پی، ایم ایل اے اور بار کونسل ارکان کے الیکشن کو روکنا پڑا۔ اگر وقت پر الیکشن ہوجاتا تو رکن پارلیمنٹ کے زمرہ میں صدر مجلس دوبارہ وقف بورڈ کے رکن منتخب ہوتے۔ سکریٹریٹ قدیم عمارتوں کے انہدام کے دوران دو مساجد کو شہید کرنے کے بعد رکن پارلیمنٹ حیدرآباد اور ان کی رہنمائی میں چلنے والی تنظیم یونائٹیڈ مسلم فورم نے وقف بورڈ اور اس کے صدرنشین کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ جہاں تک سکریٹریٹ کی مساجد کے انہدام کا سوال ہے اس معاملہ میں چیف منسٹر کے سی آر کے احکامات سے زیادہ کسی اور کی کوئی اہمیت نہیں۔ صدر مجلس نے گذشتہ چند دنوں میں ٹوئیٹر پر دو علحدہ ٹوئیٹ کئے ہیں۔ پہلے ٹوئیٹ میں انہوں نے محمد سلیم کو نااہل قرار دے کر چیف منسٹر سے درخواست کی کہ سابق ریٹائرڈ عہدیدار اے کے خاں یا جماعت اسلامی کے ملک معتصم خاں کو وقف بورڈ کی صدارت پر فائز کیا جائے۔ اسی ٹوئیٹ میں انہوں نے قانونی رائے حاصل کرتے ہوئے وقف بورڈ کی تحلیل کی سفارش کردی۔

اس ٹوئیٹ کے بعد سرکاری حلقے خود حیرت میں پڑ گئے اور عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جن افراد کے نام صدر نشین کی حیثیت سے پیش کئے گئے ہیں دراصل انہیں اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ بیوروکریسی اور برسراقتدار پارٹی کے علاوہ عوامی حلقوں میں مذکورہ دونوں افراد کی شناخت مقامی جماعت کے نمائندوں کی حیثیت سے ہوجائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ جن ناموں کی سفارش کی گئی وہ خود بھی رکن پارلیمنٹ کے ٹوئیٹ سے خوش نہیں ہیں اور نہ ہی اس عہدہ کو قبول کرنے تیار ہیں۔ وقف بورڈ کا اجلاس پیر کو منعقد ہوا جس میں قرارداد منظور کرکے حکومت سے کہا گیا کہ وہ کسی مسجد، قبرستان، عاشور خانہ، چھلہ اور درگاہ کے معاملہ میں وقف بورڈ کی اجازت کے بغیر کوئی کارروائی نہ کرے۔ بورڈ نے میڈیا کے حوالے سے اوقافی جائیدادوں کے انہدام کا ذکر کرکے اس سلسلہ میں تمام ضلع کلکٹرس کو مکتوب روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بورڈ کے اجلاس میں چیف منسٹر اور چیف سکریٹری سے سکریٹریٹ کی دونوں مساجد کے تحفظ پر نمائندگی کا بھی فیصلہ کیا گیا۔