صدر امریکہ بائیڈن کی خارجہ پالیسی

   

Ferty9 Clinic

نہ کوئی بزم سے منصوبہ فرار چلے
ہر ایک سمت نگاہِ کمالِ یار چلے
صدر امریکہ بائیڈن کی خارجہ پالیسی
دنیا بھر کے مسائل کے بارے میں اپنی منفرد پالیسی بنانے والے امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے اپنے پہلے خطاب میں خارجہ پالیسی پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ اسلامی ملکوں خاص کر سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کی دوستی اور عرب خطہ میں جاری کشیدگی، تشدد و جنگ جیسی صورتحال پر بائیڈن نے سعودی عرب کا ساتھ دینے کا ادعا کیا۔ سعودی عرب نے بھی بائیڈن کی اس خارجہ پالیسی کا خیرمقدم کیا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہاکہ صدر امریکہ بائیڈن کی جانب سے سعودی عرب کی سلامتی اور سعودی سرزمین کے تحفظ کے لئے تعاون جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرنا خوش آئند ہے۔ یمن کے امریکی خصوصی نمائندہ ٹموٹھی لندر کنگ کے ساتھ کام کریں گے تاکہ یمن کے مسئلہ کا جامع سیاسی حل تلاش کرسکیں۔ بائیڈن نے یمن کے حوالے سے ایک بات یہ بھی کہی کہ اب یمن میں جنگ کا خاتمہ ہونا چاہئے کیوں کہ جنگ اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد کو لقمہ بناچکی ہے۔ صدر بائیڈن نے اپنی خارجہ پالیسی سے متعلق یہ واضح کیا کہ سابق صدر ٹرمپ کی جو پالیسیاں تھیں ان میں تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔ امریکہ کی طرف پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو قبول کرنے کے لئے بائیڈن کا اثباتی رول اہم ہے۔ جرمنی سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے فیصلے کو بھی واپس لے لیا گیا ہے۔ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے بارے میں سعودی عرب پہلے سے زیادہ مطمئن نظر آرہا ہے۔ البتہ حوثی باغیوں کو ہتھیاروں کی سربراہی روکنے اور ان ملکوں پر تحدیدات عائد کرنے کے لئے زور دیا گیا ہے جو یمن میں حوثی باغیوں کو ہتھیار سربراہ کررہے ہیں۔ بائیڈن کی اس خارجہ پالیسی میں میانمار کے فوجی حکمرانوں سے سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کو رہا کرنے، جمہوریت کی بحالی کے لئے زور دیتے ہوئے روس کے ساتھ سفارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے عزم کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ بائیڈن کی تقریر میں ایران کا ذکر نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بائیڈن نظم و نسق نے ایران کے معاملہ کو اہمیت نہیں دی ہے البتہ سابق ٹرمپ نظم و نسق کی طرح بائیڈن نظم و نسق ایران کے معاملہ میں غیر ضروری تلخ موقف اختیار کرتا نظر نہیں آرہا ہے۔ ٹرمپ نے جو غلطیاں کی تھیں اب ان کا اعادہ نہیں ہوگا۔ ٹرمپ نے دنیا کے سامنے امریکہ کی شبیہ مسخ کردی تھی۔ بائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ دنیا کے سامنے امریکہ کو اول درجہ پر رکھنے اور امریکیوں کو سرفہرست شہری بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ بائیڈن کے نظم و نسق میں خارجہ پالیسی کو بہتر بنانے کے ساتھ تجارتی پالیسی کو مؤثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے عہدہ کا جائزہ لینے کے بعد سب سے پہلا دورہ سی آئی اے کا کیا تھا اور ٹرمپ نے صدر کی حیثیت سے ایک سال کی مدت ختم ہونے کے بعد اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا دورہ کیا تھا لیکن اس کے برعکس بائیڈن نے اپنی میعاد کا آغاز اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے کیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ خارجی خدمات انجام دینے والے آفیسرس کا حوصلہ بڑھاکر ساری دنیا کے ساتھ بہتر روابط کی کوشش کررہے ہیں۔ سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بنکن نے بائیڈن کے ساتھ 20 سال سے کام کیا ہے۔ ان کو خارجہ پالیسی کا برسوں پرانا تجربہ ہے۔ اسی لئے صدر بائیڈن کی خارجہ ڈپلومیسی کو فروغ دینے میں وہ اہم رول ادا کریں گے۔ امریکہ کے داخلی مسائل بھی بائیڈن کے لئے نازک اور اہم ہیں۔ لیکن وہ اپنی صدارت کی شروعات خارجی اُمور پر توجہ دے کر کررہے ہیں۔ انھیں امریکی مفادات کے علاوہ دیگر ممالک کے مفادات کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی کو تیار کرنے کے ساتھ اس پالیسی پر عمل آوری سے اب کئی چیالنجس اُبھر کر سامنے آرہے ہیں۔ وہ امریکہ کے حلیف ملکوں اور حریف ملکوں کے ساتھ کس طرح روابط رکھتے ہیں یہ ان کے لئے کڑی آزمائش ہے۔
پکوان گیاس، پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ
ہندوستان پر اب قیمتوں میں اضافہ کرنے والا مافیا کام کررہا ہے۔ ہر شئے پر اضافی قیمتیں لی جارہی ہیں۔ حکومت نے پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کو اپنی عادت بنالیا ہے۔ پکوان گیاس کی قیمت میں اضافہ کا راست اثر عوام کی جیب پر پڑے گا۔ مودی حکومت نے قیمتوں میں اضافہ کے ذریعہ عوام الناس کی زندگیوں کا دائرہ تنگ کرنا شروع کردیا ہے۔ عوام کو کہیں سے بچ کر جانے کا موقع نہیں دیا جارہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی ٹیم اور ان کے بھکتوں کاد عویٰ ہے کہ وزیراعظم نے مہنگائی پر مکمل کنٹرول رکھا ہے۔ یہ عوام ہی تو ہیں جو کسی ویژن کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت کا ویژن تو صاف دکھائی دے رہا ہے۔ وہ اپنی پالیسیوں کے ذریعہ عوام کو آخری حد تک بے بس کرنا چاہتی ہے۔ یہ مودی حکومت ہی کا کارنامہ ہے کہ عوام کا خط اعتماد حاصل کرکے عوام کو ہی لوٹ لینے کے لئے مافیا کو کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ موجودہ حالات میں اصل کارنامہ تو ہندوستانی عوام کررہے ہیں۔ ان پر بوجھ پر بوجھ ڈالا جارہا ہے، معاشی طور پر تنگ دست بنایا جارہا ہے اس کے باوجود ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ نہ کوئی احساس نہ کوئی احتجاج، جب عوام ہی چپ ہیں تو قیمتوں میں اضافہ کرنے والا مافیا موج کرے گا۔ آج جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کے لئے خود عوام ذمہ دار ہیں۔ 2014 ء میں انتخابی تقاریر میں وعدے کئے جاتے تھے کہ پٹرول، ڈیزل، پکوان گیاس اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتیں آدھی کردی جائیں گی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ عوام کے اندر اس قدر بے حسی ہے کہ ان کے سامنے زیادہ جھوٹ بولا جارہا ہے انھیں لوٹا جارہا ہے لیکن عوام ہے کہ گاندھی جی کے 3 بندر کو فالو کررہے ہیں۔