صدر امریکہ ٹرمپ کی تلخ بیانی

   

کتنی لذت تھی کسی غیر کے کام آنے میں
اب تو اپنوں کے لئے غم نہیں کرتا کوئی
صدر امریکہ ٹرمپ کی تلخ بیانی
ہندوستان میں کل یعنی بروز پیر صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ ٹرمپ کا یہ پہلا دورہ ہند ہے۔ ان کی آمد سے قبل ہی ہند ۔ امریکہ تعلقات اور معاہدوں سے متعلق ان کے بیانات سے تلخیاں پیدا ہوئی ہیں لیکن ہندوستان میں برسراقتدار بی جے پی کو صدر ٹرمپ کے مخالف ہند نظریہ میں کوئی خرابی نظر نہیں آرہی ہے۔ ملک میں سی اے اے کے خلاف ایسی افراتفری ہے کہ اہل اقتدار کو سامنے کی چیزیں نظر نہیں آرہی ہے۔ وہ امریکہ پر نظریں گاڑھے ہوئی ہے اور ضرورت سے زیادہ پروپگنڈہ مہم میں مصروف ہے۔ ہندوستان کیلئے یہ افسوسناک بات ہیکہ اس کے آنے والے مہمان نے اپنی آمد سے پہلے ہی میزبان ملک کے بارے میں شکایت کردی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ہم کو ٹریڈ کے معاملہ میں شدید ضرب پہنچا رہا ہے۔ کئی برسوں سے اعلیٰ شرحوں پر اشیاء برآمد کررہا ہے۔ صدر ٹرمپ یہاں وزیراعظم نریندر مودی سے ’’تجارت پر بات چیت‘‘ کے عنوان سے ملاقات کریں گے تاکہ وہ ہندوستان میں امریکی اشیاء کو متعارف کریں گے۔ ٹرمپ نے وزیراعظم مودی کے تعلق سے کہا کہ وہ انہیں پسند کرتے ہیں لیکن تجارت کے معاملہ میں وہ محتاط رہیں گے۔ ہندوستان کے ساتھ کسی معاہدہ سے قبل ہزارہا بار اس کا جائزہ لیں گے۔ اس سلسل میں مودی حکومت کا بیان الگ ہے وہ یہ کہہ رہی ہیکہ ٹرمپ کے دورہ کے دوران دونوں ممالک ٹریڈ پیاکیج پر اتفاق رائے قائم کرتے ہوئے بڑا تجارتی معاہدہ کریں گے۔ ٹرمپ نے ہندوستان کے ان توقعات پر یہ کہہ کر پانی پھیر دیا کہ دونوں ممالک اپنے شاندار تجارتی معاہدہ کریں گے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ممکن ہیکہ اگر ہم کو اس معاہدہ میں کچھ اچھا نہیں لگا تو ہم خاموشی سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔ اس معاہدہ پر امریکی صدارتی انتخابات کے بعد بات چیت ہوگی۔ ان بیانات کے بعد مودی حکومت کے دعوؤں پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے کہ آیا اب تجارتی معاہدہ کو قطعیت دی جائے گی یا نہیں۔ شاید صدر ٹرمپ اپنے اس دورہ ہند کو چین کے تجارتی تنازعہ کے تناظر میں دیکھ رہے ہوں کیونکہ چین، تجارت کے معاملہ میں امریکہ پر بالادستی اختیار کررہا ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے صدر چین ژی ژپنگ کے ساتھ ان کا معاملہ مختلف ہے اور ہندوستان کے وزیراعظم کے ساتھ وہ پسندیدگی کا اظہار کرتے آرہے ہیں۔ اس اٹوٹ دوستی کے باوجود ٹرمپ نے اپنے ملک کے تجارتی معاملوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ تجارت کے سلسلہ میں ٹرمپ نے چین کے ساتھ ہندوستان کوبھی اسی نظر سے دیکھنا شروع کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کا یہ بیان غیرمنصفانہ ہے کیونکہ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان دوستی اور تجارتی تعلقات دیرینہ ہیں۔ کئی ایک امور میں ہمہ نکاتی اسٹراٹیجک روابط بھی پائے جاتے ہیں جبکہ چین نے اپنی اشیاء کی فروخت اور شرحوں کے معاملہ میںامریکہ کے سامنے چیلنج کھڑا کردیا ہے۔ جہاں تک امریکہ کے سابق صدور کے دورہ ہندوستان کا تعلق ہے یہ دورے کانگریس دورحکومت میں ہوئے تھے لیکن اب مودی حکومت نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو اس قدر غلامانہ بنادیا ہے کہ کوئی بیرونی لیڈر اپنے دورہ سے قبل ہی منفی رائے پیدا کرکے یہاں پہنچ رہا ہے۔ ٹرمپ بھی اپنی تجارت کے معاملہ میں سودے بازی اور مول تول کا رویہ اختیار کرتے ہوئے یہاں آنے کی تیاری کررہے ہیں۔ اگر بی جے پی قیادت سچ سننے اور حقیقت دیکھنے کی عادت ڈال لے تو اسے اپنی خرابیوں پر نظر ڈالنے کی بھی توفیق ہوگی مگر تکلیف دہ امر یہ ہیکہ بی جے پی قیادت اس کی حکمرانی اور پالیسیوں کے باعث ہندوستان کی عالمی سطح پر ہونے والی رسوائی کو نظرانداز کررہی ہے۔ جس طرح احمدآباد کی گندگی کو ٹرمپ کی نظروں سے چھانے کیلئے سلم علاقوں کے اطراف دیوار تعمیر کروائی گئی ہے اسی طرح بی جے پی قیادت اپنی خرابیوں پر شعبدہ بازی کی چادر ڈال کر عوام کو گمراہ کررہی ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات ماضی میں اس وقت بام عروج پر پہنچ گئے جب جونیر جارج بش نے دورہ کیا اور سیول نیوکلیئر ٹکنالوجی جیسے معاہدہ کرنے میں ہندوستان کامیاب ہوگیا۔ بل کلنٹن بھی آئے اور بارک اوباما نے بھی دورہ کیا جس کے بعد دونوں ملکوں کی حکمت عملی اور تعلقات میں استحکام آنے لگا۔ اب مودی حکومت نے خارجہ پالیسی کو بیرونی طاقتوں کے آگے گروی رکھ دیا ہے جس کے نتیجہ میں صدر کی حیثیت سے ٹرمپ کا یہ دورہ شروع ہونے سے پہلے ہی تنازعات کا شکار ہوگیا۔
کورونا وائرس سے عالمی ترقی تھم جائے گی ؟
چین میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات نے ساری دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کو تشویش میں مبتلاء کردیا ہے۔ چین کو دنیا کی مضبوط و مستحکم معیشت سمجھا جانے لگا تھا لیکن کورونا وائرس نے کئی راستے مسدود کردیئے ہیں۔ ہر روز ہونے والی اموات اور اس وائرس کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے عالمی تنظیم صحت (WHO) نے وارننگ دی کہ اس وائرس کا اینٹی ڈاٹ بنانے کی سخت ضرورت ہے ورنہ یہ وائرس دھیرے دھیرے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور عالمی ترقی تھم جائے گی۔ یوروپی اور امریکی شیئرز مارکٹ میں گراوٹ درج کی گئی ہے۔ یہ وائرس اگر چین سے باہرنکل کر تیزی سے پھیلنے لگتا ہے تو پھر یہ سب سے بڑا خطرہ بن جائے گا۔ وائرس کے کیس دیگر ممالک میں بھی پائے جارہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی کوریا وائرس کی دہشت دیکھی جارہی ہے۔ عالمی صحت تنظیم نے تمام ملکوں کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے فوری حرکت نہیں کی تو یہ وائرس پھیلے گا۔ اس کو روکنا ضروری ہے۔ چین میں ڈسمبر میں پھوٹ پڑنے والا کورونا وائرس اب تک 2200 افراد کو لقمہ بنا چکا ہے اور 75,500 افراد سے زائد متاثر پائے گئے ہیں۔ دیگر ممالک میں 27 افراد فوت ہوئے اور 1150 افراد متاثرہ پائے گئے۔ اسرائیل اور لبنان کے بشمول اس وائرس کے مشرق وسطیٰ میں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ ہندوستان میں وائرس کے تعلق سے بعض کیس سامنے آئے ہیں مگر یہاں فی الحال تشویش کی بات نہیںہے۔ چین کے تمام بڑے شہروں میں روزمرہ زندگی ٹھپ ہوچکی ہے۔ کورونا وائرس نے شنگھائی شہر کو مفلوج بنادیا ہے۔ یہاں تمام سرگرمیاں بند ہیں۔ سڑکیں سنسان، مارکٹ خالی اور عوام کی چہل پہل صفر ہوکر رہ گئی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی وارننگ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے وائرس کے خلاف تمام ملکوں کو احتیاطی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔