صدر جمہوریہ کی تقریر

   

Ferty9 Clinic

وہ التفات سے پیش آئیں یا جفاؤں سے
شکست دل کا یقینا صلہ تو ملتا ہے
صدر جمہوریہ کی تقریر
جمہوریت کی بنیادوں کو کمزور کرنے والے واقعات کے درمیان کورونا وائرس کے باعث یوم جمہوریہ پریڈ کا مختصر ہونا اور اس پریڈ کے لیے اس سال کسی بیرونی مہمان کا نہ ہونا کئی ایک تبدیلیوں نے ملک کے عوام کے لیے ایک افسوس ناک خبر یہ دی ہے کہ مرکز کی مودی حکومت کو جمہوری اداروں ، دستوری اصولوں اور قانونی دفعات کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ اس سال کا یوم جمہوریہ کسانوں کے احتجاج کا مرکز بن گیا ۔ یوم جمہوریہ تقریب میں ایک خاص بات یہ دیکھی گئی کہ پہلی بار رافیل لڑکا طیاروں نے تقریب کی رونق بڑھادی اور پہلی مرتبہ بنگلہ دیش کا دستہ پریڈ میں حصہ لیا ۔ دہلی کی سرحدوں پر گذشتہ دو ماہ سے اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے کسانوں نے زرعی قوانین کو ختم کرانے کے لیے دہلی میں ٹریکٹر پریڈ نکالنے کی کوشش کی تو پولیس نے ظلم و زیادتیوں کا شکار بنادیا ۔ یہ واقعات اپنے ہی ملک کے دارالحکومت دہلی میں دیکھے گئے جہاں ان داتا کو پولیس کی لاٹھیوں ، پانی کی بوچھاروں اور طاقت کا سامنا کرنا پڑا ۔ 72 ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر منگل کا دن کسانوں کا دن کہا جارہا ہے ۔ پولیس نے حفاظت کے چاک و چوبند انتظامات کیے تھے ۔ راج پتھ پر ملک کی تاریخی وراثت اور متنوع ثقافت کی دلکش اقسام اور فوجی طاقت کے حیرت انگیز نظارہ کے درمیان اگر کسان برادری کو بھی پورے اعزاز و احترام کے ساتھ پرامن طریقہ سے احتجاج جاری رکھنے کی اجازت دی جاتی تو اسے جمہوریت کی روح تصور کیا جاتا تھا ۔ لیکن پولیس نے نے ٹریکٹر ریالی نکالنے کی اجازت دے کر بھی دہلی کی سڑکوں کو بند کردیا ۔ نتیجہ میں جھڑپیں ہوئی ہیں ۔ وسط دہلی میں راج گھاٹ اور دیگر علاقوں سے چند میٹر کی دوری پر پولیس نے کسانوں کو نشانہ بنایا ۔ آنسو گیاس شل برسائے کسانوں نے لال قلعہ تک پہونچنے میں کامیابی حاصل کی ۔ لال قلعہ ایک اہم مقام ہے جہاں سے حکومت وقت ہر سال اپنے پروگرام اور پالیسیوں کا اعلان کرتی ہے ۔ لال قلعہ تک کسانوں نے پہونچکر اپنی بات سارے ملک کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ۔ پولیس کو بے بسی کا شکار بناکر کسانوں کے ساتھ عوام بھی شامل ہوگئے ۔ یہ احتجاج ملک کی تاریخ کا سب سے اہم احتجاج ہے ۔ اس کے باوجود اگر مودی حکومت اپنی یکطرفہ پالیسیوں کو کسانوں اور اس ملک کے عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گی تو یہ ایک المیہ سے کم نہیں ہوگا ۔ نیشنل وار میموریل پر وزیراعظم نریندر مودی نے شہیدوں کو خراج پیش کیا لیکن زندوں کو لاٹھیاں دیں ۔ دہلی میں کسانوں کی پریڈ رکوانے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں ۔ کسانوں کو اکشردھام تک آنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ لیکن یہ احتجاجی کسان وسط دہلی میں داخل ہوگئے ۔ کسانوں میں زبردست جوش نظر آرہا تھا ۔ صدر جمہوریہ رامناتھ کووند نے اپنے یوم جمہوریہ خطاب میں کسانوں سے ہمدردی تو ظاہر کی لیکن ان کے مسائل حل کرنے کے بارے میں ٹھوس بیان نہیں دیا ۔ صدر جمہوریہ نے نئے قوانین کو کسانوں کے حق میں درست قرار دیا ۔ زراعت اور لیبر کے شعبوں میں ایسی اصلاحات کی گئیں جن کی ایک طویل عرصہ سے توقع کی جارہی تھی ۔ حکومت کسانوں کے مفادات کے لیے پوری طرح وقف ہے ۔ اگر حکومت واقعی کسانوں سمیت تمام طبقوں کی فلاح و بہبود کے لیے پوری طرح سے پرعزم ہے تو پھر آج اس ملک کا ہر شہری پریشان کیوں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ صدر جمہوریہ کا خطاب محض ایک ربر اسٹامپ ہی رہے گا یا ایک جمہوری اور دستوری اتھاریٹی کو حقائق کی روشنی میں تیاری کرنی ہوگی ۔ ملک کی معاشی صورتحال ابتر ہے ۔ اس کے باوجود صدر جمہوریہ نے معاشی اصلاحات کی تعریف تو کی لیکن جی ڈی پی بڑھانے کے لیے حکومت کے اقدامات کا ذکر نہیں کیا۔ اس کا مطلب صدر جمہوریہ کی تقریر حکومت کی پالیسیوں کا ہی آئینہ ہوجائے تو پھر ملک کے عوام کو درپیش مسائل کی یکسوئی نہیں ہوگی اور بیروزگاری بڑھتی جائے گی ۔ بہر حال ملک کے عوام نے یوم جمہوریہ تقاریب حکومت کے ناقابل فہم بیانات اور تلخی بڑھانے والے کسان احتجاج کے درمیان منایا ہے ۔ آئندہ سال تک ملک مزید کن کن مسائل سے دوچار ہوگا یہ وقت ہی بتائے گا۔۔