روس کے صدر ولادیمیر پوٹن دو روزہ دورہ پر آج ہندوستان پہونچ رہے ہیں۔ اس دورہ کا چند دن قبل ہی اعلان کیا گیا تھا اور اس کی تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ صدر پوٹن کی سکیوریٹی اور حفاظتی ٹیم بھی ہندوستان پہونچ چکی ہے اور ہندوستان کی جانب سے بھی اس دورہ کو کامیاب اور ثمر آور بنانے کیلئے اقدامات مکمل کرلئے گئے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے کئے گئے اقدامات کے نتیجہ میں ہندوستان اور روس کے تعلقات میں بہتری پیدا ہوئی ہے اور دونوںہی ممالک ایک دوسرے کے قریب آنے لگے ہیں۔ ویسے بھی دونوںملکوں کے مابین تعلقات بہت دیرینہ اور مستحکم رہے ہیں تاہم درمیان میں ہندوستان کی امریکہ سے قربتوںمیں اضافہ ہوا تھا اور پاکستان نے روس کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اب جبکہ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ دوسری معیاد میںصدارتی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں اور انہوںنے جو کچھ اقدامات عالمی سطح پر کئے ہیںان کے نتیجہ میں کئی ممالک کی از سر نو صف بندیاں ہونے لگی ہیں اور خود امریکہ نے لگاتار مخالف ہند اقدامات کئے ہیں۔ اس کے علاوہ روس کو نشانہ بنانے سے بھی صدر ٹرمپ گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے جہاں ہندوستان پر بھاری شرحیں عائد کردی ہیں وہیں انہوں نے ایک سے زائد مرتبہ یہ دعوی بھی کیا ہے کہ انہوں نے ہی تجارتی پابندیاں عائد کرنے کا انتباہ دیتے ہوئے ہند۔ پاک جنگ کو رکوانے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ اس کے علاوہ وہ یوکرین کے ساتھ جنگ روکنے کیلئے روس پر بھیدباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن روس امریکہ کے دباؤ کی بجائے اپنی شرائط پر جنگ بندی کرنا چاہتا ہے ۔ ولادیمیر پوٹن ایک سے زائد مرتبہ یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ ٹرمپ کے دباؤ کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہیںاور یوکرین کے ساتھ جنگ اسی وقت ختم ہوسکتی ہے جب روس کی شرائط کو تسلیم کی جائے ۔ اسی طرح ہندوستان نے بھی اپنے اقدامات سے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ نہ امریکہ کے آگے جھکنے کو تیار ہے اور نہ ہی وہ امریکہ کے بشمول کسی بھی ملک کا دباؤ تسلیم کرے گا ۔ دونوںہی ملکوں نے سخت موقف اختیار کیا ہے ۔
چونکہ دنیا بھر میں صدر ٹرمپ کے فیصلوںکے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور امریکہ ہر ملک پر اپنی شرائط عائد کرنا چاہتا ہے ایسے میں ہندوستان و روس کے تعلقات میں استحکام اور نئے جو ش و خروش کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ہندوستان ‘ روس سے تیل کی خریدی کا سلسلہ بند کرے۔ اسی خریدی کی وجہ سے امریکہ ہندوستان پر بھاری شرحیں عائد کردی ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ روس اپنے تیل کی جو تجارت کر رہا ہے اسسے اسے بھاری آمدنی ہو رہی ہے اور اسی کی مدد سے روس نے یوکرین کے خلاف جنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ امریکہ اور خاص طور پر ٹرمپ کا یہ احساس ہے کہ تیل کی تجارت کو روکا جائے اور روس کی آمدنی پر اثر انداز ہوا جائے تو پھر وہ یوکرین کے ساتھ جنگ بندی کیلئے تیار ہوسکتا ہے ۔ امریکہ اپنے طور پر یہ دعوی بھی کرنے لگا ہے کہ ہندوستان نے روس سے تیل کی خریدی روک دینے سے بھی اتفا ق کرلیا ہے جبکہ ہندوستان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی فیصلہ کرتا ہے اور کسی کے دباؤ میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا ۔ روس اور ہندوستان دونوں ہی امریکہ کے نشانے پر دکھائی دے رہی ہیں اور اس صورتحال میں ان دونوںملکوںکے مابین تعلقات کا استحکام بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ ان حالات میں صدر پوٹن ‘ ہندوستان سے تعلقات کی اہمیت کو سمجھتے ہیںاور اسی اہمیت کا اظہار کرتے ہوئے وہ ہندوستان کے دورہ پر آ رہے ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ یہ دورہ بہت کامیاب ہوگا ۔
روس ہو یا ہندوستان ہو دونوں ہی کو اس بات کا احساس ہونے لگ ہے کہ عالمی معاملات میں امریکہ کی اجارہ داری ان کیلئے ہر وقت قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔ اس طرح سے ان کے ملکی مفادات متاثر ہونے کے اندیشے لاحق ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ عالمی امور ہو یا قومی تجارت ہو اس معاملے میں کسی کی مداخلت نہ ہونے پائے ۔ ان حقائق کی روشنی میں صدر پوٹن کا دورہ ہندوستان بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے ۔ دونوںہی ملکوںکو اس بات کا احساس بھی ہے اور اسی احساس کے تحت باہمی تعلقات کو بلند ترین سطح تک مستحکم کرنے کی ضرورت ہے اور کئی شعبہ جات میں دونوںملکوںکے تعلقات میں وسعت کی امید بھی ہے ۔