ہند۔پاک جنگ بندی میں امریکی صدر کی مداخلت پر شیوسینا کی سخت الفاظ میں تنقید
ممبئی: 12 مئی (آئی اے این ایس) شیو سینا (یو بی ٹی) نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت اور ان کے ذریعے اعلان کردہ جنگ بندی پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان اخبار ’سامنا‘کے اداریے میں سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے سوال اٹھایا گیا:صدر ٹرمپ کو یہ اختیار کس نے دیا؟ کیا صدر ٹرمپ نے ہندوستان کی خودمختاری خریدی؟ کس چیز کے بدلے؟ کون سا معاہدہ ہوا؟ ملک کو یہ جاننے کا حق ہے۔ اداریے میں کہا گیا: ہندوستانی فوج اور فضائیہ نے پاکستان کی جانب سے بھیجے گئے ڈرونز اور میزائلوں کو ناکام بنایا اور پاکستان کو منہ توڑ جواب دیا، مگر اس کے باوجود پہلگام حملہ کرنے والے چھ دہشت گردوں کا سراغ نہیں ملا۔ ہند۔ پاک کشیدگی کی اصل وجہ 26 بے گناہوں کی ہلاکت تھی، مگر صدر ٹرمپ نے سارا پانی پھیردیا۔ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان میں امن قائم ہو، مگر وہ مہاتما گاندھی، مارٹن لوتھرکنگ یا نیلسن منڈیلا نہیں، وہ ایک تاجر ہیں۔ ہندوستان کے موجودہ حکمران تاجروں نے امریکی تاجروں سے ہاتھ ملا لیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اسرائیل۔ فلسطین جنگ نہیں روکی، بلکہ اسرائیل کا ساتھ دے کر غزہ کے معصوم لوگوں کی اموات کو دیکھا اور ہندوستان کو امن کا سبق دینے آ گئے۔مزید کہا گیا: “ہندوستان ایک خودمختار ملک ہے، کسی بھی غیر ملکی طاقت کو ہمارے معاملات میں دخل اندازی کا حق نہیں، مگر صدر ٹرمپ نے ہندوستان۔ پاک تنازعہ میں مداخلت کی، اور ہندوستان نے ان کی جنگ بندی کی تجویز قبول کر لی۔ ٹرمپ نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اعلان کیا کہ ہندوستان نے جنگ بندی مان لی ہے، جبکہ اس وقت تک ہندوستانی عوام اور فوج کو اس کا علم بھی نہیں تھا۔ صدر ٹرمپ کو یہ اختیار کس نے دیا؟ اداریے کے مطابق 1971 کی ہند۔ پاک جنگ کے بعد ہوئے شملہ معاہدے کے مطابق، دونوں ملکوں کے درمیان کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی اجازت نہیں ہے،لیکن اب وزیراعظم نے شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہندوستان نے ٹرمپ کے دباؤ میں آ کر جنگ بندی منظورکر لیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ’آپریشن سندور‘ مکمل ہوا؟ کیا پاکستان سے بدلہ لیا گیا؟ ملک کو اس کا جواب نہیں ملا۔ اداریے میں پاکستان کے حملے میں راجوری۔ پونچھ میں مارے گئے 12 معصوم شہریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا: “ان کا قصور کیا تھا؟ وزیر اعظم مودی اس قدر جلد بازی میں تھے کہ جیسے ہی ہند۔ پاک تنازعہ شروع ہوا، انہوں نے پیچھے مڑکر دیکھنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ جیسے ہی ملک اور فوج میں جوش و خروش پیدا ہوا، ٹرمپ نے مداخلت کردی۔ پاکستان کے حملے میں 7 ہندوستانی فوجی شہید ہوئے۔ ان میں ممبئی کے 23 سالہ نوجوان مرلی نائک بھی شامل ہیں۔ مرلی نائک اور دنیش شرما نے دشمن کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانی دی۔
ان جیسے ہزاروں جوان سرحدوں پر سینے پر گولیاں کھا رہے ہیں۔ مرلی نائک کے والدین گھاٹ کوپرکی جھونپڑ پٹی میں رہتے ہیں اور محنت مزدوری سے اپنا گھر چلاتے ہیں۔ ان کے اکلوتے بیٹے نے مادر وطن کے لیے اپنی جان دی۔ مرلی کے والد نے کہا، مجھے فخر ہے کہ میرا بیٹا ملک کی خدمت کے لیے گیا لیکن آخرکار ان کے گھر میں بھوک نے بسیرا کر لیا۔ جنگ کے سیاسی جنون میں بہنے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے۔
“جو لوگ جنگ کے سیاسی جنون میں مبتلا ہیں، انہوں نے نہ کبھی قربانی دی ہے اور نہ ہی کبھی بہادری دکھائی ہے، مگر ایسا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جیسے یہ جنگ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے لوگوں نے لڑی ہو۔ حکومت نے نیوز ایجنسیوں اور کچھ چینلوں کو بند کر دیا ہے۔ سیز فائر کے بعد بھی وزیر دفاع ’آپریشن سندور‘ کا ذکر کر رہے ہیں۔ مگر بنیادی سوال یہ ہیں کہ وہ چھ دہشت گرد آئے کیسے؟ اور گئے کہاں؟ ان کا پتہ کیوں نہ چل سکا؟ ان سوالات کا جواب دینا ضروری ہے۔”
اداریہ مزید کہتا ہے:
“جمعرات کی رات جموں کے سامبا سیکٹر سے داخل ہونے والے دہشت گرد تنظیم جیش محمد کے سات دہشت گردوں کو بی ایس ایف کے جوانوں نے مار گرایا۔ انہی سپاہیوں نے پاکستانی بارڈر پر موجود ایک چوکی کو بھی تباہ کیا، جو قابل ستائش ہے، اور ہر بھارتی شہری کو یہ جاننا چاہیے۔”
آخر میں اداریہ کہتا ہے:
“پاکستان ڈٹا ہوا ہے، اور پاکستانی وزیراعظم نے پہلگام حملے میں بیوہ ہونے والی 26 بہنوں کے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہے کہ ‘ہم نے جنگ جیت لی’۔ ایسے وقت میں وزیراعظم، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کہیں نظر نہیں آ رہے۔ جنگ سے پہلے وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ پاکستان کے قبضے والا کشمیر بھارت کا حصہ ہے، اور ہم اس کے لیے جان بھی دے دیں گے، مگر جیسے ہی فوج نے کشمیر کی جانب پیش قدمی کی، مودی-شاہ نے ٹرمپ کی بات مان لی اور سیز فائر قبول کر لیا۔ کیا پاکستان کے ساتھ تصادم میں شہید ہونے والے سات فوجیوں کی قربانیاں رائیگاں چلی گئیں؟”
اداریے کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے:
“اگر جیش کے سات دہشت گردوں کو سرحد پر مارا گیا، تو وہ دہشت گرد جو پہلگام جیسے سیاحتی مقام پر گھس کر قتل عام کر گئے، وہ کیسے داخل ہوئے؟ انہیں کیسے کھلا چھوڑ دیا گیا؟ انہوں نے 26 بہنوں کا سندور مٹا دیا، اور اس کے بعد وہ کہاں گئے؟ ان سب سوالات کے جواب دیے جانے ضروری ہیں۔”