بی بی خاشعہ
مشکوۃ شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ’’صدقہ خدا کے غضب کو بجھا دیتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے‘‘۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو کسی مسلمان ننگے بدن کو کپڑا پہنائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا سبز (ہرا) لباس پہنائے گا اور جو کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے میوے کھلائے گا اور جو کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلائے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کو جنت کا خالص شربت پلائے گا‘‘۔ (مشکوۃ شریف)
صدقہ مال کو کم نہیں کرتا اور اللہ تبارک و تعالی اس بخشش کے بدلے انسان کی عزت و وقار کو بڑھاتا ہے اور جو شخص اللہ تعالی کی رضا جوئی کے لئے تواضع کرتا ہے، اللہ تبارک و تعالی اسے بلند مرتبہ عطا فرماتا ہے۔ طبرانی کی روایت ہے کہ صدقہ مال کو کم نہیں کرتا اور نہ ہی بندہ صدقہ دینے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے، مگر وہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں جاتا ہے، یعنی اللہ تعالی اسے سائل کے ہاتھ میں جانے سے پہلے قبول کرلیتا ہے اور کوئی بندہ بے پرواہی کے باوجود سوال کا دروازہ نہیں کھولتا مگر اللہ تعالی اس پر فقر کو مسلط کردیتا ہے۔ بندہ کہتا ہے میرا مال ہے میرا مال ہے، مگر اس کے مال کے تین حصے ہیں، جو کھایا وہ فنا ہو گیا، جو پہنا وہ پرانا ہو گیا، جو راہ خدا میں دیا وہ حاصل کرلیا اور جو اس کے سواء ہے وہ اسے لوگوں کے لئے چھوڑ جانے والا ہے۔
فطر کے معنی روزہ چھوڑنے کے آتے ہیں، شریعت کی اصطلاح میں صدقہ فطر اس صدقہ کو کہا جاتا ہے، جو رمضان المبارک کے روزوں کے اختتام پر واجب ہوتا ہے۔ صدقۂ فطر کی بڑی فضیلت و اہمیت ہے۔ روایتوں میں آیا ہے کہ رمضان المبارک کے اختتام کو ابھی دو یوم باقی تھے کہ سورۂ اعلیٰ کی آیات نازل ہوئیں کہ ’’بلاشبہ کامیاب ہوا وہ شخص جو اپنے آپ کو باطن کی گندگیوں اور کدورتوں سے پاک کرلیا اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی‘‘۔ حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپﷺ نے اس کا مصداق صدقۂ فطر بتایا اور بعض روایات میں ان آیات کا مصداق صدقۂ فطر، تکبیرات، عید اور نماز عید قرار دیا ہے اور جس سال مسلمانوں پر رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے، اسی سال حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم صادر فرمایا۔
رمضان المبارک میں روزے رکھنے والے اپنی حد تک یہ کوشش کرتے ہیں کہ رمضان کا احترام کریں اور ان حدود اور آداب و شرائط کا پورا لحاظ رکھیں، جن کے اہتمام کی شریعت نے تاکید کی ہے، تاہم انسان سے بہت سی شعوری اور غیر شعوری کوتاہیاں ہو جاتی ہیں۔ صدقۂ فطر کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ آدمی خدا کی راہ میں دل کی آمادگی سے اپنی کمائی خرچ کرے، تاکہ ان کوتاہیوں کی تلافی ہو سکے اور خدا کے حضور روزہ شرف قبولیت پا سکے۔ اس کے علاوہ عید کے موقع پر صدقۂ فطر دینے کی ایک حکمت اور مصلحت یہ بھی ہے کہ سماج کے نادار اور غریب افراد بھی اطمینان اور کشادگی کے ساتھ اپنے کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کی ضرورتیں پوری کرسکیں اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ عیدگاہ میں حاضر ہو سکیں، تاکہ عیدگاہ کا اجتماع بھی عظیم الشان ہو اور راستوں میں مسلمانوں کی کثرت سے اسلام کی شان و شوکت کا بھی اظہار ہو سکے۔ حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ’’جب تک صدقہ فطر ادا نہیں کیا جاتا، بندے کا روزہ زمین و آسمان کے درمیان معلق (یعنی لٹکا ہوا) رہتا ہے‘‘۔ حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے تاکید کے ساتھ صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلمانوں میں سے ہر مرد و عورت اور چھوٹے بڑے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو صدقۂ فطر واجب قرار دیا۔ اس لئے آپ نے اس بات کا بھی حکم دیا کہ صدقۂ فطر لوگوں کے نماز عید کو جانے سے پہلے دے دیا جائے۔ (بخاری و مسلم) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپﷺ نے مدینہ کے گلی کوچوں میں اپنے منادی کے ذریعہ اعلان کرایا کہ صدقۂ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے۔ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، بالغ ہو یا نابالغ۔ (ترمذی شریف)
مسلمانوں پر صرف اپنا ہی فطرہ ادا کرنا واجب نہیں، بلکہ زیر کفالت بچوں اور ہر اس شخص کا فطرہ بھی واجب ہے، جس کا نان و نفقہ اس کے ذمہ ہو۔ کسی شرعی مجبوری کے تحت یا کسی وجہ سے اگر کوئی شخص روزہ نہ رکھ سکا تو اس پر بھی صاحب نصاب ہونے کی صورت میں صدقۂ فطر واجب ہے۔ (ردمختار) حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صدقہ فطر عید کے دن صبح صادق ہوتے ہی واجب ہوتا ہے، جو شخص صبح صادق سے پہلے وفات پا گیا تو اس کے مال میں سے صدقۂ فطر نہیں دیا جائے گا اور جو بچہ عید کے دن صبح صادق سے پہلے پیدا ہوا ہو اس کی طرف سے دیا جائے گا۔ صدقۂ فطر کی ادائیگی کا بہتر وقت یہ ہے کہ عید کے دن نماز کے لئے جانے سے پہلے دیا جائے۔
جن لوگوں کو زکوۃ دی جا سکتی ہے، انھیں صدقۂ فطر بھی دیا جا سکتا ہے۔ جمہور فقہاء کا یہی مسلک ہے۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے صدقۂ فطر کو فقراء و مساکین کے ساتھ خاص کردیا ہے۔ حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ایک قول یہی ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک آٹھوں قسم کے مصارف میں تقسیم کرنا ضروری ہے، یا پھر جتنے پائیں جائیں ان تمام میں تقسیم کرنا چاہئے۔
عید الفطر کے دن ہم ہر عمل اللہ عز و جل اور رسول پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی خوشنودی اور دوزخ سے نجات کے لئے اخلاص کے ساتھ کریں۔ ان شاء اللہ تعالی ماہ رمضان المبارک اور عید الفطر کی تمام عبادات اللہ کے حضور مقبول و ممتاز ہو جائیں گی، جب کہ عید الفطر غریبوں سے ہمدردی کا بہترین دن ہے۔