صرف اپوزیشن ہی نشانہ پر کیوں؟

   

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
صرف اپوزیشن ہی نشانہ پر کیوں؟
ایک اور اپوزیشن لیڈر شرد پوار اور ان کے بھانجے اجیت پوار کے خلاف بھی انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے مقدمہ درج کرلیا ہے ۔ یہ دونوں مہاراشٹرا کے اہم اور طاقتور سیاسی قائدین ہیں۔ شرد پوار مہاراشٹرا کے چیف منسٹر اور مرکزی وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں جبکہ اجیت پوار مہاراشٹرا کے ڈپٹی چیف منسٹر بھی رہ چکے ہیں۔ این سی پی میں یہ دونوں اہم قائدین ہیں۔ شرد پوار نے این سی پی قائم کی تھی اور تنظیمی سطح پر اس پر اجیت پوار کی گرفت مضبوط بتائی جاتی ہے ۔ مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات کا شیڈول جاری ہوگیا ہے ۔ ریاست میں 21 اکٹوبر کو رائے دہی ہوگی اور 24 اکٹوبر کو نتائج کا اعلان ہوگا ۔ اس کیلئے اب ایک ماہ کا وقت بھی باقی نہیں رہ گیا ہے اور ریاست میں سیاسی اور انتخابی سرگرمیاںشدت اختیار کرچکی ہیں۔ ایسے میں شرد پوار کے خلاف مقدمہ کا اندراج ان شبہات کو تقویت دینے کیلئے کافی ہے کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت کی جانب سے صرف اپوزیشن کے قائدین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن کے اس الزام کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ مودی حکومت تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ اپوزیشن کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ان سے سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے ۔ جس طرح سے تحقیقاتی ایجنسیوں نے اپوزیشن کے قائدین کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے اس سے ان الزامات کو مسترد کرنا آسان نہیں رہ جاتا ۔ کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا ‘سابق وزیر فینانس و داخلہ پی چدمبرم ‘ کرناٹک میں کانگریس کے سابق وزیر ڈی کے شیو کمار ‘ بہار میں لالو پرساد یادو ‘ یو پی میں اکھیلیش یادو کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کے کئی قائدین کو جس طرح سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت سیاسی مخالفین سے انتقامی رویہ اختیار کر رہی ہے اور ان کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیوں کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ خود بی جے پی کی صفوں میں اور اس کی حلیف جماعتوں میں بھی ایسے کئی قائدین ہیں جن کے خلاف اسی نوعیت کے الزامات ہیں لیکن ان کے خلاف ایجنسیوں کے ذریعہ کوئی کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی ہے ؟ ۔
مقدمات کی ایک طویل فہرست ایسی بھی ہے جس میں بی جے پی یا اس کی حلیفوں کے قائدین کے نام ہیں۔ فہرست میں کئی قائدین ایسے بھی شامل ہیں جو پہلے اپوزیشن کی صفوں میں تھے تاہم اب وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے ہیں تو انہیں بھی ایجنسیوں سے راحت ملی ہوئی ہے ۔ سابق چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان کے خلاف ویاپم اسکام کی تحقیقات چل رہی ہیں لیکن انہیں کوئی ہراسانی نہیں ہو رہی ہے ‘ بنگال میں ترنمول کے جن قائدین پر پونزی اسکام کے تحت مقدمات درج کرتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کردیا گیا تھا وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے ہیں اور تحقیقات کو برفدان کی نذر کردیا گیا ہے ۔ مہاراشٹرا میں خاتون وزیر پنکجا منڈے کے خلاف مقدمہ ہے لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ بہار میں شیلٹر ہوم کا مسئلہ سنگین نوعیت اختیار کرگیا تھا لیکن چونکہ نتیش کمار بی جے پی کے حلیف ہیں اس لئے ان کی پارٹی یا حکومت کے خلاف کوئی ایجنسی حرکت میں نہیں آئی ہے ۔ بی ایس یدی یورپا کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر رشوت کے مقدمات ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی تو دور کی بات ہے انہیں تو ریاست کرناٹک کا چیف منسٹر بنادیا گیا ۔ اس طرح یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف اپوزیشن قائدین ہی ایجنسیوں کے نشانہ پر کیوں ہیں ؟۔
جس وقت سے بی جے پی مرکز میں برسر اقتدار آئی ہے اسی وقت سے یہ الزامات عائد کئے جار ہے تھے کہ اپوزیشن اور سیاسی مخالفین کے خلاف ایجنسیوں کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ خود بی جے پی قائدین وقفہ وقفہ سے اپنے مخالفین کو انتباہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنی راہ درست کرلیں ورنہ ان کا حال بھی چدمبرم جیسا ہوگا ۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اپوزیشن کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ۔ جو مخالفین حکومت کا دباو تسلیم کرنے تیار نہیں ہیں انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جارہا ہے ۔ اب تو ان مقدمات پر خود برسر اقتدار اتحاد کی حلیفوں کی جانب سے بھی بے چینی ظاہر کی جا رہی ہے ۔ حکومت کو اس طرح سیاسی انتقام کی پالیسی کو تر ک کرتے ہوئے قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے اور تحقیقاتی عمل میںمداخلت سے گریز کا راستہ اختیار کرنا چاہئے ۔