صرف مسجد کا دروازہ بند ہوا ہے توبہ کا نہیں

   

محمد مصطفی علی سروری
امریتا ادھیکاری کا تعلق مدھیہ پردیش کے علاقے اُجین سے ہے۔ سال 2007 میں اپنے والد کے گذر جانے کے بعد سے گھر چلانے کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر آنپڑی تھی۔ امریتا ایک پارلر میں کام کرتے ہوئے اپنے گھر کے اخراجات پورا کر رہی تھی۔ صبح و شام ایسے ہی گذر رہے تھے۔ زندگی کی اس بھاگ دوڑ میں امریتا اس قدر مصروف ہوگئی کہ وہ خود پر کبھی دھیان ہی نہیں دے سکی۔ ہاں تفریج کے لیے جب بھی وقت مل جاتا وہ ویڈیوز بناتی اور ٹک ٹاک کے دوستوں سے بات کرلیتی۔ لیکن جب کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے حکومت نے ملک بھر میں لاک ڈائون کا اعلان کردیا تو کروڑوں ہندوستانیوں کے ساتھ امریتا بھی اپنے گھر تک محدود ہوکر رہ گئی۔ لیکن جلد ہی امریتا کے گھر کا بھی راشن پانی ختم ہونے لگا۔ امریتا کی فکریں بھی بڑھنے لگیں کہ مہینے کے آخری دن بازار بھی بند کرے تو کیا کرے۔ کس سے مدد طلب کی جائے۔ ایسے پس منظر میں اچانک امریتا کے گھر پر کسی کے دستک دینے کی آواز آتی ہے۔ پریشان حال امریتا دروازہ کھولتی ہے تو وہاں پر چند مسلم نوجوان کھڑے تھے جو یہ کہتے ہوئے اپنا تعارف کرواتے ہیں کہ ہم لوگ پاس کی مسجد سے آئے ہیں اور لاک ڈائون کے دوران پریشان حال لوگوں کے گھروں تک راشن اور اشیائے ضروریہ تقسیم کر رہے ہیں۔

قارئین 29؍ مارچ 2020ء کی صبح 10 بجے کے قریب امریتا ادھیکاری نام کی اس خاتون نے اپنا ایک ویڈیو ریکارڈ کر کے دوست احباب کو بھیجا۔ امریتا نے اپنے ویڈیو میں کیا کہا آپ حضرات بھی پڑھ لیجیے۔ وہ کہتی ہے ’’اس کو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی کسی کو بھوکا نہیں سلاتا۔ میرے گھر میں بھی راشن ختم ہورہا تھا۔ بس یہ سونچ کر ہی میں پریشان تھی۔ میرے کسی دوست نے نہیں پوچھا۔ کسی رشتہ دار نے میری کیفیت نہیں لی اور کل شام کو میرے گھر پر مسجد کے مفتی صاحب دو بچوں کو لے کر آئے اور گھر کی ضرورت کا سارا سامان پہنچایا اور کہا کہ دیدی اگر آپ کو اور بھی کچھ ضرورت ہو تو ضرور بتانا۔ امریتا نے اپنے ویڈیو میں مزید کہا کہ جب ’’اللہ میاں نے میرے کھانے کا انتظام کردیا تو میرے دل میں مسلمانوں کی عزت اور بڑھ گئی۔ اسلام کی عزت تو میرے دل میں بہت زیادہ ہے۔‘‘قارئین کورونا وائرس کی وباء نے جہاں ملک بھر میں ہنگامی حالات پیدا کردیئے ہیں وہیں ملک کے مسلمانوں کے لیے نئے مواقع بھی فراہم کیے ہیں کہ وہ دیگربرادران وطن کی خدمت کرتے ہوئے ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق نرم گوشہ ہموار کرسکیں۔

سدا شیو پیٹ کا علاقہ شہر حیدرآباد سے تقریباً 75 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سید امجد اس منڈل میں چائے کی پتی کی دوکان چلاتے ہیں۔ حالانکہ لاک ڈائون کے سبب امجد کی دوکان تو بند ہے لیکن ان کے گھر میں دو سولوگوں کے پکوان کی تیاری چل رہی ہے۔ گھر کے سارے لوگ اس کام میں مصروف ہیں۔ کیا ان ہنگامی حالات میں بھی امجد کے گھر پر کوئی دعوت چل رہی ہے؟ اگر نہیں تو پھر امجد کے ہاں 200 لوگوں کے لیے کھانا کس لیے تیار کیا جارہا ہے۔ اخبار دی ہندو نے 29؍ مارچ 2020ء کو آر او دھانی کی ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ سداشیوپیٹ میں چائے کی پتی بیچنے والا یہ نوجوان پچھلے آٹھ دنوں سے اپنے گھر میں دو مرتبہ 180 لوگوں کے لیے کھانا تیار کر رہا ہے۔ رپورٹ میں مزید اس علاقے میں
MRF
نام کی ایک ٹائر بنانے والی کمپنی ہے۔ لاک ڈائون سے عین قبل اس کمپنی میں مٹیریل پہنچانے والے 50 لاریاں آئی تھیں۔ جب لاک ڈائون کا اعلان ہوا تو یہ ٹرک ان کے ڈرائیورس اور کلینرس وہیں پھنس گئے۔ دو دنوں تک کمپنی والوں نے ان کے کھانے کا انتظام کیا۔ مگر اس کے بعد ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ 200 کے قریب لاریوں کے عملے کو بھوکا دیکھ کر ٹائون کے سرکل انسپکٹر پی سریدھر ریڈی نے لوگوں سے اپیل کی کہ کوئی ان بھوکے لوگوں کی مدد کرنے کے لیے آگے آئے۔ سرکل انسپکٹر کی اپیل پر سید امجد نے تقریباً 180 لوگوں کے لیے کھانا پکارکر کھلانے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ آٹھ دنوں سے صبح 21 کیلو اور شام 17 کلو چاول پکاکر امجد اور ان کے گھر والے اس کھانے کے پیاکٹ تیار کر رہے ہیں۔ پھر ان کھانے کے پیاکٹس کو
MRF
کمپنی کے قریب ٹھہرے ہوئے ٹرک ڈرائیورس اور دوسرے لوگوں تک پہنچانے کا کام کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایک وقت کھانا پکانے کے لیے تقریباً تین گھنٹے لگ رہے ہیں۔ کھانا پکانے کے اس کام میں سید امجد کے سارے گھر والے ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ چائے کی پتی کی دوکان چلانے والے اس شخص کے لیے یہ کیسے ممکن ہوا کہ وہ اپنے گھر سے روزانہ دو وقت تقریباً دو سو لوگوں کے لیے کھانا فراہم کرے ؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے اخبار دی ہندو کے رپورٹر کو بتلایا کہ میرے پورے خاندان والے اس کام کے لیے میری مدد کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے میرے لیے یہ کام ممکن ہوا۔ امجد صاحب کے گھر کے چھوٹے بچے بھی اس کام میں ان کا ہاتھ بٹارہے ہیں۔

قارئین یہ تو اخبار دی ہندو کی رپورٹ تھی جس کے ذریعہ سے سب کو سداشیوپیٹ کے سید امجد کے اس کارخیر کے بارے میں معلوم ہوا۔ کورونا وائرس کو لے کر جس طریقے سے تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین کو بدنام کرنے میں سرکاری مشنری سے لے کر گودی میڈیا نے اور خود اپنوں نے اپنے مسلکی تعصب کا مظاہرہ کیا اس پس منظر میں ہر ایک مسلمان کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ وہ اپنے طور پر بھی دیگر برادران وطن تک اسلام کی سچی تصویر اور تعلیمات پیش کرنے کی کوشش کریں۔

ملک کے دارالحکومت دہلی سے تقریباً 300 کیلومیٹر کے فاصلے پر پنجاب کے مگوور ضلع کے شہر مالیرکوٹلہ میں ایک دینی مدرسہ کے جس کا نام مدرسہ تجوید القرآن ہے۔ اس دینی مدرسہ کے اقامت خانے میں تقریباً 40 طلبہ رہائش پذیر ہیں۔ اس مدرسہ کے ذمہ دار جناب سلیم صاحب کے مطابق اچانک لاک ڈائون کے اعلان کی وجہ سے ان کے مدرسہ کے بچے یو پی اور بہار کو واپس نہیں جاسکے اور مدرسہ میں ہی رہ گئے اور اس دینی مدرسہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ لاک ڈائون اور کرفیو کے سبب ان کے کھانے پینے کا انتظام مشکل ہوگیا تھا۔ قارئین آپ حضرات کو جان کر خوشی ہوگی کہ مشکل کی اس گھڑی میں دینی مدرسے کے طلبہ کی مدد کے لیے ایک گرودوارہ آگے آیا۔ جی ہاں قارئین ایک گرودوارہ کے ذمہ داروں نے اس دینی مدرسہ کے بچوں کے کھانے پینے کی ذمہ داری اٹھائی۔ The Tribune اخبار کے رپورٹر پرویش شرما نے 30؍ مارچ کو ایک رپورٹ دی جو اخبار میں
“Malerkotla Gurudwara feeds Madrasa Students”
سُرخی کے تحت شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق گرودوارہ کے ہیڈ گرنتھ نریندر پال سنگھ نے کہا کہ کرفیو لگ جانے کے بعد جب ہمیں پتہ چلا کہ مدرسہ تجوید القرآن کے ذمہ دار مدرسہ میں قیام کرنے والے بچوں کو کھانے کا انتظام کرنے میں پریشانی محسوس کر رہے ہیں تو ہم نے فوری طئے کیا کہ ان بچوں کو کھانا فراہم کرنے کی ذمہ داری گرودوارہ اٹھائے گا۔‘‘

قارئین اخبار نے آگے لکھا کہ اس گرودوارہ میں مدرسہ کے بچوں کے علاوہ ایک ہزار لوگوں کے کھانا کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ مدرسہ کے مولوی سلیم صاحب کے حوالے سے اخبار نے لکھا کہ وہ گرودوارہ کے انتظامیہ کے شکر گذار ہیں جنہوں نے ضرورت کی اس گھڑی میں اپنا دست تعاون دراز کیا او رمدرسہ کے بچوں کے لیے لنگر کا انتظام کیا۔

قارئین یہ کوئی ایک اکلوتی مثال نہیں ۔ ایسی بے شمار مثالیں جو ہمیں سونچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ ہمیں اپنی مسجدوں کے رول پر دوبارہ غور کرنا ہوگا کہ ہماری مساجد صرف عبادت کے لیے محدود نہیں رہیں۔ کیونکہ جن مساجد کو عبادت کے لیے بند کرنے کی اپیل کی گئی اگر وہاں غریب لوگوں کی ضروریات کا خیال کیا جاتا رہا تو گرودواروں کی طرح مساجد بھی اس طرح کے ہنگامی حالات میں شہر والوں اور اطراف و اکناف کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے والے مراکز بنے رہتے۔
اُجین، مدھیہ پردیش کی ایک مسجد کی مثال ہے لیکن گرودواروں کے متعلق تو ہر عام و خاص جانتا ہے کہ بھوکا اور ضرورت مند کوئی بھی گرودوارہ سے کھانا بھی حاصل کرسکتے ہے بلکہ ابتدائی طبی امداد بھی اس کو مل سکتی ہے۔

احمد عالم کا تعلق بہار سے ہے۔ لاک ڈائون کے باعث مزدوری کرنے والا یہ شخص پنجاب میں پھنسا ہوا ہے اور بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہے۔ احمد عالم نے اخبار The Tribune کے نمائندے جی ایس پال کو بتلایا کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کو کسی طرح گولڈن ٹمپل سنہری گرودوارہ جانے دیا جائے جہاں پر اس کو کم سے کم پیٹ بھر کر کھانا تو مل سکتا ہے۔ کیونکہ لاک ڈائون اور کرفیو کے سبب وہ اپنی جگہ سے باہر نہیں جاسکتا ہے (بحوالہ اخبار دی ٹریبیون۔ 31؍ مارچ 2020)
قارئین ہر ضرورت مند غریب اس بات کو بخوبی جان گیا ہے کہ جب وہ گرودوارہ چلا جائے تو وہاں پر اس کو کم سے کم کھانا تو پیٹ بھر ضرور مل سکتا ہے۔ کیا ہم نبیؐ کے پیغام محبت کو عام کرنے اور اسلام کی سچی تعلیمات کو اللہ کے تمام بندوں کو پہنچانے کے لیے اسلامی لٹریچر کے ساتھ ساتھ مساجد سے غریبوں، ضرورت مندوں کے لیے مدد کا بھی بیڑہ نہ اٹھائیں۔ کیا ہم مسلمان ایسا کرسکتے ہیں یا نہیں۔
شیخ کلیم نامی ایک شناسا نے مجھ سے دریافت کیا کہ وہ ایک ٹیکسی ڈرائیور ہے اور لاک ڈائون کے سبب مسلسل گھر پر ہے اور اب اپنے مالک مکان کو کرایہ دینے سے قاصر ہے اور اس کا مسلمان مالک مکان کرایہ میں رعایت دینے تیار نہیں تو کلیم کا سوال تھا کہ حکومت کی سفارش کے باوجود اگر کوئی مالک مکان کرایہ کا اصرار کرے تو کیا اس کے خلاف پولیس سے شکایت کی جاسکتی ہے؟
اب وقت آگیا ہے کہ اب نہیں تو کبھی نہیں کے مصداق جاگئے گا اپنے آپ کو پہچانیے کہ ہم کونسی امت سے ہیں اور ہماری ذمہ داری کیا ہے۔ ابھی تو مسجد کے دروازے ہی بند ہوئے ہیں کہیں اتنی دیر نہ ہوجائے کہ توبہ کا راستہ بھی …
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم گنہگاروں کو معاف فرمائے اور ہمیں ان لوگوں کا راستہ چلائے جن پر اس نے انعام کیا ہو۔ (آمین یارب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]