وہ اپنی جان بھی حق پر نثار کرتے ہیں
جو حق کو جان کے حق اختیار کرتے ہیں
ملک کی سات ریاستوں میں13 اسمبلی نشستوں کیلئے ضمنی انتخاب کے نتائج آج سامنے آگئے ۔ لوک سبھا انتخابات میں اپنے بل پر اکثریت حاصل کرنے میںناکام بی جے پی کو ان ضمنی انتخابات میںا یک بار پھر عوام کی ناراضگی اور شکست کا سامنا کرنا پڑا یہ اور اس نے محض دونشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ انڈیا اتحاد کی جماعتوںنے مختلف ریاستوں میںعوامی موڈ کی عکاسی کرتے ہوئے 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے ۔ ایک آزاد امیدوار بھی بہار میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ویسے تو بی جے پی ملک میںہر انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کا دعوی کرتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس جتنی مستحکم اور موثر انتخابی مشنری ہے وہ کسی اور کے پاس نہیںہے ۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ بی جے پی کے پاس دولت ‘ طاقت اور میڈیا کا ساتھ سب کچھ ہے اس سب کے باوجود بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ عوامی تائید اور حمایت سے مسلسل محروم ہوتی جا رہی ہے ۔ پہلے تو لوک سبھا انتخابات میں 400 نشستوںپر کامیابی کا دعوی کیا گیا تھا لیکن وہ اپنے بل پر اکثریت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی ہے ۔ وہ 240 نشستوں پر ہی رک گئی تھی ۔ دوسری جانب کانگریس زیر قیادت انڈیا اتحاد نے پہلے کی بہ نسبت بہترین واپسی کرتے ہوئے جملہ 232 نشستیں حاصل کی تھیں۔ انڈیا اتحاد بتدریج عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ نتائج بی جے پی کیلئے آئندہ وقتوں کی مشکلوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان ضمنی انتخابات میں جہاں انڈیا اتحاد نے 10 نشستیں حاصل کی ہیں وہیں بی جے پی کو محض دو نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا ہے ۔ بی جے پی کیلئے لوک سبھا انتخابی نتائج کے بعد یہ ضمنی انتخابی نتائج بھی آنکھیںکھولنے کیلئے کافی ہیں۔ پنجاب میں برسر اقتدار عام آدمی پارٹی نے جالندھر اسمبلی حلقہ سے فیصلہ کن کامیابی حاصل کی ہے ۔ وہاں اس کے امیدوار نے 23 ہزار ووٹوں کی اکثریت حاصل کی ہے ۔ اس کے علاوہ مغربی بنگال میں ممتایبنرجی کی گرفت مسلسل مستحکم برقرار ہے اور وہاںچار نشستوںکے ضمنی انتخابات ہوئے اور چاروں ہی نشستوںپر ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس نے کامیابی درج کروائی ہے ۔ یہاںبھی بی جے پی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
اسی طرح ہماچل پردیش میں کانگریس پارٹی نے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے ۔ بی جے پی کو یہاں محض ایک نشست حمیر پور میں جیت مل سکی ہے ۔ یہاں دو نشستوں میںایک پر چیف منسٹر سکھویندر سنگھ سکو کی اہلیہ کملیش ٹھاکر نے دہرہ نشست سے جیت درج کروائی ہے ۔ اس نشست پر کے علاوہ کانگریس نے ریاست میں نلا گڑھ نشست پر بھی کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس نے اترکھنڈ میں بھی دو اسمبلی نشستوں کا ضمنی انتخاب جیت لیا ہے ۔ ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنا موقف مستحکم کیا ہے جبکہ بہار میں بی جے پی کی حلیف جنتادل یونائیٹیڈ کو دھکا لگا ہے ۔ پورنیا نشست کے ضمنی انتخاب میں جے ڈی یو کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہاں سے آزاد امیدوار نے کامیابی درج کروائی ہے ۔ بحیثیت مجموعی ضمنی انتخابات میں انڈیا اتحاد کا مظاہرہ بہت متاثر کن کہا جاسکتا ہے اور بی جے پی کیلئے یہ نتائج لمحہ فکر کہے جاسکتے ہیں۔ بی جے پی کیلئے آئندہ چند مہینوں میںکچھ ریاستوںمیںہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے صورتحال مشکل ہوتی نظر آنے لگی ہے اور ان میںسب سے اہم بہار کہا جاسکتا ہے ۔ بہار میں نتیش کمار کی زیر قیادت حکومت کیلئے ضمنی انتخاب میںشکست اچھی علامت نہیں ہوسکتی ۔ لوک سبھا انتخابات میں حالانکہ این ڈی اے کو بہار میں سبقت ملی تھی لیکن اسمبلی کیلئے جب ووٹ ڈالے جائیں گے تو صورتحال میں تبدیلی کے واضح اشارے ملنے شروع ہوگئے ہیں اور پورنیااسمبلی حلقہ کا نتیجہ اسکی مثال ہے ۔ بی جے پی کیلئے اپنی حکمت عملی پر از سر نو غور کرنا ضروری ہوگیا ہے ۔
جہاں تک انڈیا اتحادکی بات ہے تو اس کی جماعتوں کو مرکز میں بھلے ہی اقتدار حاصل نہیں ہو پایا ہے لیکن اس کے باوجود ان جماعتوں نے جس طرح سے ابھی تک اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اور پارلیمنٹ میںنریندرمودی حکومت کو گھیرنے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی ہے اس کی وجہ سے عوام میں اب اس کی قدر و قیمت میںاضافہ ہونے لگا ہے ۔ لوگ اس جانب بھی متوجہ ہونے لگے ہیں۔ عوام کو بھی یہ احساس ہونے لگا ہے کہ بی جے پی یا نریندر مودی کو شکست دینے کی انڈیا اتحاد میں طاقت اور صلاحیت موجود ہے ۔ یہی وہ صورتحال ہے جو بی جے پی کیلئے مشکل پیدا کرسکتی ہے اور انڈیا اتحاد کیلئے آئندہ اتحاد کی کامیابیوں کا سبب بھی بن سکتی ہے ۔ انڈیا اتحاد کو اپنی صفوںمیںاسی اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور بی جے پی کیلئے چیلنج بن کر ابھرنے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھنی چاہئے تاکہ عوام کا یقین مستحکم ہوتا رہے۔
ٹرینی آئی اے ایس کے نخرے
ان دنوں مہاراشٹرا کی ایک ٹرینی آئی اے ایس عہدیدار کے نخرے اور مبینہ غلط رویہ میڈیا اور سوشیل میڈیا میں موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ مرکزی حکومت نے اس خاتون افسر کے خلاف تحقیقات کا اعلان بھی کردیا ہے اور اگر ان کے خلاف الزامات درست پائے جاتے ہیں تو پھر انہیں خدمات سے برطرف بھی کیا جاسکتا ہے ۔ آئی اے ایس ہندوستان میں ایک معزز اور انتہائی اہمیت کا حامل عہدہ ہوتا ہے اورا س پر فائز ہونے والے افراد عوامی بہتری اور فلاح کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کیلئے کڑی محنت اور جدوجہد کے ذریعہ کامیابی حاصل کی جاتی ہے تاہم ایکا دوکا عہدیدار کی غلطیوں کی وجہ سے عوام میں اس کا منفی اثر جاتا ہے ۔ جو کوئی اس با وقار عہدہ کو حاصل کرتے ہیں اور عوامی خدمات کیلئے فائز ہوتے ہیں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ وہ اپنے عہدہ کی شان و شوکت سے لطف اندوز ہونے کی بجائے اس کی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کی تکمیل کیلئے مصروف ہوجائیں۔ اپنے طرز عمل سے اس باوقار عہدہ کو عوام کی نظروں میں کم کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ یہ انتہائی نازیبا طرز عمل ہے ۔