طاقت ، دولت اور عدم جوابدہی

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس

دولت مند ، معاشرہ میں بڑا مقام حاصل کرلیتے ہیں اور معاشرہ میں بڑے مقام پر فائز بے تحاشہ دولت پالیتے ہیں اور جب وہ دولت اور مقام و مرتبہ دونوں حاصل کرلیتے ہیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ معاشرہ کیلئے خطرہ بننے والے ہیں۔ اور وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہوں گے۔ جان شرمن جو امریکہ کے ایک سینیٹر اور سیکریٹری آف اسٹیٹ تھے (جنہوں نے 1890 میں اینٹی ٹرسٹ ایکٹ پیش کیا تھا، اس ایکٹ یا قانون کو شرمن ایکٹ بھی کہا جاتا ہے) ایک وقت کہا تھا کہ اگر ہم ایک بادشاہ کو ایک سیاسی طاقت کے طور پر برداشت نہیں کریں گے ، ہمیں پیداوار ، حمل و نقل اور ضروریات زندگی میں سے کسی کی فروخت پر بادشاہ کو برداشت نہیں کرنا چاہتے۔ بہرحال اسٹانڈر آئیل اینڈ اے ٹی پر اینڈ ٹی کا معیار امریکہ میں توڑا گیا۔ چین نے البانیہ میں کارروائی کی جبکہ ٹینسیٹ اینڈ ڈی ڈی، مائیکرو سافٹ، گوگل اور فیس بک کو کئی ملکوں میں شدید تنقیدوں، کارروائیوں اور برہمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے؟ کیونکہ وہ بہت بڑھ گئے ہیں۔ ان کی مقبولیت اور رسائی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ ان کمپنیوں نے بے شمار دولت بھی بٹورلی ہے اور آج ان کا یہ حال ہوگیا ہے کہ وہ کسی کو جوابدہ نہیں رہے۔ جیسا کہ ہم ایک بادشاہ کو ایک حکمراں کے طور پر برداشت نہیں کریں گے، ایسے ہی ہم ایسے حکمراں کو بھی برداشت نہیں کرتے جو بادشاہ بننے چاہتا ہے۔ کئی ایسے ملک ہیں جہاں صدور یا وزرائے اعظم کی میعاد محدود ہوتی ہے کیونکہ وہ چاہے مرد ہو یا عورت مکمل اختیارات حاصل کرسکتے ہیں۔
جمہوریت اور دولت مند
مسٹر ولادیمیر پوٹن نے روس میں اہم طاقت بنے رہنے کیلئے ایک راستہ پالیا ہے، چاہے وہ صدر کی حیثیت سے ہو یا وزیراعظم کی حیثیت سے۔ دوسری طرف چینی صدر مسٹر شی جن پنگ نے اپنے اقتدار اور اختیارات کو مستحکم کرلیا ہے۔ انہوں نے اپنے ملک میں صدور کی میعاد کی جو حد ہوتی ہے، اس کو ہی ختم کردیا ہے۔ اس طرح وہ آئندہ سال اپنی تیسری میعاد شروع کرنے والے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو روس اور چین دونوں ملکوں میں جمہوریت نہیں ہے یعنی یہ جمہوری ممالک نہیں ہے اور نہ ہی بہت زیادہ دولت مند ممالک کی فہرست میں آتے ہیں۔ اگر دنیا کے 10 دولت مند ترین ممالک کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ فی کس اوسط آمدنی کے لحاظ سے دنیا کے 10 سرفہرست ممالک میں پہلا نمبر لگژمبرگ کا ہے جبکہ دوسرے نمبر پر آئرلینڈ ، تیسرے نمبر پر سوئٹزر لینڈ ، چوتھے نمبر پر ناروے، پانچویں نمبر پر امریکہ ، چھٹے نمبر پر آئی لینڈ، ساتویں پر ڈنمارک اور آٹھویں پر سنگاپور دکھائی دیتے ہیں جبکہ آسٹریلیا کو نواں اور مملکت قطر کو دسواں مقام حاصل ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ سوائے قطر کے جہاں بادشاہت ہے اور سنگاپور جوکہ ایک کوالیفائیڈ جمہوری ملک ہے، دیگر آٹھ ممالک پوری طرح جمہوریت کے حامل ہیں۔ میں ان آٹھ ممالک میں سے کسی ایک ملک کے صدر یا وزیراعظم کا نام نہیں لے سکتا ہے، سوائے امریکہ کے اور کچھ کوشش کے بعد آسٹریلیا کے صدر یا وزیراعظم کا نام لے سکتا ہوں۔ میرے کہنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایسا ملک اور اس کے عوام دولت مند اور جمہوریت پسند ہوسکتے ہیں جن کی قیادت ایسے قائدین کرتے ہوں جو بہت زیادہ منظر عام پر آنے کو پسند نہیں کرتے۔ وہ انتہائی محفوظ رہتے ہیں۔ ان لیڈروں میں سے میری معلومات کے مطابق کوئی بھی ہٹ دھرمی اور غرور و تکبر کے الزامات سے آلودہ نہیں ہے۔ یہ لوگ خود کو میڈیا کی چکاچوند سے دور رہ کر اپنے عوام کی خدمت کرتے ہیں۔

عدم جوابدہی کی طرف جھکاؤ
جمہوریت یقینا بہترین طرز حکمرانی کیلئے کلید کی حیثیت رکھتی ہے لیکن جمہوریت کو مکمل اختیارات حاصل ہوجائیں تو یہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے یا پھر مکمل اختیارات کے نتیجہ میں پارلیمنٹ اور میڈیا کی تحقیر کی جانے لگتی ہے حالانکہ جمہوریت میں اس طرح کے چیزوں کیلئے کوئی جگہ نہیں اکثر خود سر یہ کہنے لگتے ہیں میں ہی یہ اچھی طرح جانتا ہوں اور میں نے کئی مرتبہ اس بارے میں اظہار خیال بھی کیا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مکمل اختیارات ملنے پر شخصیتیں ببانگ دہل خود کو کسی ملک کا نجات دہندہ قرار دینے لگتے ہیں اور یہ حالات اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کوئی سیاسی جماعت بہت آگے بڑھ جاتی ہے۔ بے تحاشہ دولت کی مالک بن جاتی ہے اور وہ جوابدہی کے عمل سے بالاتر ہوجاتی ہے۔ اب ہمارے ملک میں بی جے پی کو لے لیجئے۔ بی جے پی نے تو دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں بی جے پی سب سے دولت مند سیاسی جماعت ہے۔ لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے اسے 300 نشستیں حاصل ہیں جبکہ ملک کی ریاستی اسمبلیوں کی 4036 نشستوں میں سے بی جے پی کو 1,435 نشستیں رکھنے کا اعزاز ملا ہے۔ ملک کی 28 ریاستوں میں سے 17 ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں اور ان ہی وجوہات نے بی جے پی کو بہت بڑی پارٹی بنا دیا ہے اور دولت کے لحاظ سے بھی بی جے پی ہی سرفہرست ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائیٹس کے پیش کردہ اعداد و شمار ہمیں یہ بتا رہے ہیں۔ 2019-20ء میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو عطیات کے طور پر 3,377 کروڑ روپئے حاصل ہوئے اور اس میں سے 2,642 کروڑ روپئے بی جے پی کو ملے اور یہ رقم نامعلوم ذرائع بشمول بدنام زمانہ الیکٹورل بانڈس سے حاصل ہوئی۔ حالیہ عرصہ کے دوران پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا جس میں بی جے پی نے 252 کروڑ روپئے خرچ کرڈالے اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس رقم میں سے 151 کروڑ روپئے بی جے پی نے صرف مغربی بنگال میں خرچ کرڈالے۔ جہاں اسے شرمناک شکست ہوئی۔ پچھلے سات برسوں کے دوران بی جے پی اس قدر طاقتور بن گئی ہے کہ اس میں جوابدہی کا تصور ہی باقی نہیں رہا۔ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اس نے پارلیمنٹ میں مباحث بھی بند کردیئے اور مباحث اور پارلیمانی کمیٹیوں کی جانب سے جانچ کے بناء بے شمار بلز بھی من مانی طریقے سے منظور کرائے۔ حد تو یہ ہے کہ اکثر بلز پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مباحث کے بغیر منظور کئے گئے۔ ایک اور غیرمعمولی سیاسی طاقت حاصل کرنے کے نتیجہ میں وزیراعظم مذہبی طور پر پارلیمنٹ اور میڈیا کو نظرانداز کرنے لگے اور حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین، سماجی جہد کاروں، صحافیوں اور طلباء کے خلاف سی بی آئی، ای ڈی، آئی ٹی، این آئی اے (قومی تحقیقاتی ایجنسی) اور اب این سی بی کو استعمال کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے۔ اس قدر بڑی ، دولت مند اور جوابدہی سے بالاتر ہوجانے کے باوجود بی جے پی کو کئی انتخابات میں کامیابی ملی لیکن شکست بھی اس کا مقدر بنی۔ ایسی کئی کامیابی ہیں جسے بی جے پی کی ناکامی کہا جاسکتا ہے۔ بی جے پی نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر ارکان اسمبلی کو بھی خریدنے سے گریز نہیں کیا، باالفاظ دیگر اسے ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت پر کوئی پشیمانی بھی نہیں ہوئی۔ بی جے پی نے دولت اور طاقت کے بل بوتے پر ارکان اسمبلی کو خریدا اور گورنروں کی مدد سے حکومتیں تشکیل دیں اور شرمناک بات یہ ہے کہ حکومتوں کی ان تشکیل کے ناپسندیدہ عمل کو بی جے پی والوں نے بڑے فخر کے ساتھ آپریشن لوٹس کا نام دیا۔

صرف شکست کا خوف
بی جے پی حکومت نے تین زرعی قوانین من مانی انداز میں منظور کرتے ہوئے پوری طرح ہٹ دھرمی اور غرور و تکبر کا مظاہرہ کیا اور ان قوانین کی بھرپور مدافعت کی حالانکہ جن کیلئے یہ قوانین بنائے گئے، ان کسانوں نے ہی حکومت کے ان قوانین کو سیاہ قوانین سے تعبیر کیا، اور ایک اہم بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ان زرعی قوانین کے تعلق سے کوئی مباحث تک نہیں کئے گئے اور جان بوجھ کر آرڈیننس کے ذریعہ بلز منظور کئے گئے اور ان بلز کو پارلیمنٹ میں مباحث کے بغیر قانون میں تبدیل کردیا گیا۔ ان قوانین کے خلاف کسانوں نے مسلسل 15 ماہ احتجاج کیا، لیکن حکومت نے زرعی قوانین سے متعلق ان کی شکایات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی زحمت تک نہیں کی۔ بات چیت کیلئے کسانوں کو مجبور تو کیا گیا لیکن سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ایک سیاسی تھیٹر کے مانند ڈرامہ بازی کی گئی ۔ حد تو یہ ہے کہ کسانوں اور ان کے حامیوں کو مختلف ناموں سے گالیاں دی گئیں۔ کبھی انہیں خالصتانی کہا گیا ، تو کبھی انہیں قوم دشمن عناصر سے تعبیر کیا گیا۔ کسانوں کے خلاف بدتمیزی کی تمام حدوں کو پار کردیا گیا۔ یہاں تک کہ پولیس نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ظلم و جبر کی انتہا کردی۔ سپریم کورٹ کے سامنے بھی حکومت کا ردعمل ہٹ دھرمی کا رہا اور حکومت ، کسانوں کے احتجاج کے دوران اپنے آپ میں مگن رہی۔ اس نے ایسا ظاہر کیا جیسے زرعی بلز کسانوں کی بہبود کو یقینی بناتے ہیںلیکن انٹلیجنس رپورٹ اور سروے جیسے ہی ایوان اقتدار میں پہنچنے لگے ان کی پریشانیوں کا آغاز ہوگیا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مودی حکومت نے اپنے قدم جو پیچھے ہٹائے ہیں، وہ صرف اور صرف انتخابات ہارنے کے خوف سے ہٹائے ہیں۔مثال کے طور پر 30 اسمبلی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے تھے جس میں سے بی جے پی کو صرف 7 نشستوں پر کامیابی ملی۔ اس کے فوری بعد حکومت پر اس قدر خوفزدہ ہوگئی کہ اس نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں چند گھنٹوں کے اندر ہی کمی کردی۔ پھر زرعی قوانین مسٹر کابینی منظوری کے بغیر واپس لینے کا اعلان کردیا جس سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ انہیں اترپردیش ، اتراکھنڈ ، منی پور اور گوا میں بڑی ناکامیوں کا ڈر ہے۔ مودی کو اس بات کا بھی خوف ہے کہ پنجاب میں بی جے پی کا مظاہرہ انتہائی ناقص ہوگا۔