طالبان کیساتھ امن معاہدہ پر نظر ثانی کی جائے گی: بائیڈن

,

   

افغانستان میں اِس وقت 2,500 امریکی فوجی تعینات
وائٹ ہاؤس قومی سلامتی مشیر جیک سولیوان کی اپنے
افغان ہم منصب سے فون پر بات چیت

واشنگٹن : صدر امریکہ جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ نے کہا ہے کہ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں افغان طالبان کے ساتھ کئے گئے امن معاہدہ پر نظر ثانی کی جائے گی۔ دریں اثناء افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ افغان طالبان نے دوحہ امن معاہدہ کی شرائط پر کس حد تک عمل کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے قومی سکیورٹی کے مشیر جیک سولیوان نے اپنے افغان ہم منصب سے فون پر بات چیت میں یہ بھی واضح کیا کہ اس بات کا جامع تجزیہ ضروری ہے کہ سابق امریکی حکومت اور طالبان کے مابین طے پانے والے اس معاہدہ کی نکات کیا ہیں اور ان پر عمل درآمد کس طرح ہو سکتا ہے۔وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سولیوان نے واضح کیا ہے کہ فروری 2020ء میں امریکہ اور طالبان کے مابین دوحہ امن معاہدہ پر نظر ثانی کے علاوہ اس بات کا تجزیہ بھی کیا جائے گا کہ اس معاہدے کے بعد طالبان تشدد میں کتنی کمی لائے ہیں، اس گروہ نے دیگر انتہا پسند گروپوں سے اپنے رابطے کس حد تک ختم کیے ہیں اور اس نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی خاطر کیا اقدامات کیے ہیں۔سولیوان کے مطابق اس معاہدہ کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ طالبان اس معاہدہ کے تحت طے پائے جانے والے سبھی نکات کا احترام کریں۔ صدر امریکہ جو بائیڈن کے اعلیٰ سفارت کار نے یہ بھی کہا کہ وہ افغانستان میں گزشتہ 20 سال سے جاری جنگ کو ہمیشہ کیلئے ختم کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کی وطن واپسی چاہتے ہیں۔اس وقت افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد ڈھائی ہزار ہے، 2001ء میں افغان جنگ شروع ہونے کے بعد سے وہاں متعین امریکی فوجیوں کی کم ترین تعداد ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے امن معاہدہ کے تحت عہد کیا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنے فوجیوں کو واپس لے آئے گی۔گزشتہ برس 29 فروری کو طے پانے والے دوحہ امن معاہدہ کے تحت افغان طالبان نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ وہ افغانستان کی سرزمین پر انتہا پسند گروپوں کو اپنی کارروائیوں سے روکیں گے، اپنے حملوں کو ختم کریں گے اور کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں گے۔اس امن معاہدہ کے تحت البتہ طالبان اور کابل حکومت کے مابین امن مذاکرات کا سلسلہ ابھی تک شروع نہیں ہو سکا ہے۔ ادھر افغان صدر اشرف غنی کے مشیر وحید عمر کا کہنا ہے کہ طالبان نے ابھی تک اپنے حملوں میں کمی نہیں کی ہے بلکہ اس میں اضافہ کر دیا ہے۔ کابل کا یہ الزام بھی ہے کہ طالبان قومی سطح پر امن مذاکرات شروع کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔