طالبان کے حملہ میں 14 افغان فوجی ہلاک،متعدد زخمی

,

   

کابل30مئی(سیاست ڈاٹ کام )مشرقی افغانستان میں طالبان کے حملے میں 14 افغان فوجی ہلاک ہو گئے جبکہ افغان حکام کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی سیز فائر کے سلسلے میں طالبان سے بات چیت کر رہے ہیں۔طالبان نے پکتیا صوبے میں کیے گئے اس حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے اور اسے ایک دفاعی حملہ قرار دیا البتہ انہوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ گزشتہ رات جنگجوو[؟][؟]ں نے حال ہی میں صوبہ پکتیا کے ضلع داندے پتن میں تعمیر دشمنوں کی چوکیوں پر حملے کئے ، دشمن ان دنوں اپنی حکمرانی کو جنگجوؤں کے علاقے میں توسیع دینے کے کئے کوشاں ہے ۔افغان حکام نے فوجیوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے لیکن ضلع داندے پتن کے گورنر عید محمد احمدزئی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ حملے میں سیکیورٹی فورسز کے 15 اہلکار اور 20 طالبان مارے گئے ۔افغانستان نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر آفس کے ترجمان جاوید فیصل نے کہا کہ بے ترتیب جھڑپوں کے علاوہ عید کے تین دن سیز فائر کا احترام کیا گیا جہاں اس سیز فائر کا خاتمہ منگل کو ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سیز فائر ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں پرتشدد واقعات کی روک تھام کے لئے بہترین تعاون درکار ہوتا ہے اور ہم نے یہ کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔طالبان نے بدھ کو حکومت پر فضائی حملے کا الزام عائد کیا تھا جس میں کئی شہری ہلاک ہو گئے تھے البتہ حکومت کا کہنا ہے کہ ان کا ہدف طالبان جنگجو تھے ۔دونوں فریقین ہی مکمل طور پر جنگ پر آمادہ نظر نہیں آتے اور چند اکا دکا جھڑپوں کے باوجود عیدالفطر پر شروع ہونے والا سیز فائر اب بھی جاری ہے ۔ادھر طالبان اور افغان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے گفتگو کے لئے طالبان کا 5 رکنی وفد کابل میں موجود ہے ۔یاد رہے کہ رواں سال 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان افغان امن معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت کابل انتظامیہ اب تک 2 ہزار طالبان قیدی رہا کر چکی ہے جبکہ طالبان نے 347 قیدیوں کو رہا کیا ہے ۔امن معاہدے کے تحت افغان حکومت نے 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنا ہے جبکہ طالبان ایک ہزار افغان فوجی اور پولیس اہلکاروں کو رہا کرنے کے پابند ہیں۔اس معاہدے کے تحت امریکی فوجی واپس اپنے وطن لوٹ جائیں گے اور امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ اختتام کو پہنچے گی۔اس معاہدے میں طالبان اور افغان حکومت سے مذاکرات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ پرامن انداز میں مستقبل کے کا فیصلہ کیا جا سکے لیکن افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان جاری تنازع کے سبب مذاکراتی عمل تعطل کا شکار تھا۔