تیموتھی ویک نے کہاکہ وہ مانتے تھے کہ امریکہ دستوں نے چھ مرتبہ انہیں بچانے کی کوشش کی‘ رہا ہونے والوں میں امریکی یرغمال کیوین کنگ بھی شامل تھے‘ جنھیں رہائی ملی ہے
نیویارک۔مسٹر ویکس نے کہاکہ وہ طالبان سے نفرت نہیں کرتے‘ کہاکہ کچھ گارڈس ”پیاری لوگ ہیں“ جب وہ رہا ہورہے تھے تو انہوں نے ویکس کو گلے بھی لگایاتھا۔انہوں نے کہاکہ ”میں نے امید نہیں چھوڑی تھی۔
میں جانتا تھا ایک روز میں آزاد ہوں گا“۔ مسٹر ویکس اور مسٹر کنگ جوماہر تعلیم ہیں اسی ماہ تین دہشت گردوں کو جنھیں افغان انتظامیہ نے قید کیاتھا کی رہائی کے عوض طالبان نے آزادکیا‘ ایک معاہدے کے تحت یہ کام ہوا ہے جس کے بعد سے امن کی بات چیت کی ابتدائی عمل میں ائی۔
مذکورہ جوڑے کو تین سال قبل افغانستان کے کابل میں امریکی یونیورسٹی کے باہر سے اغوا کرنے کے بعد یرغمال بنایاگیاتھا‘ جہا ں پر وہ پروفیسر وں کے خدمات انجام دیاکرتے تھے۔
جیل ونگ کے اندر 2000طالبانی رکھے ہوئے ہیں۔نیو ساوتھ ویلس کے وگاوگا سے تعلق رکھنے والے 50سالہ مسٹر ویکس جمعرات کی رات آسڑیلیا سے واپسی کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔
انہوں نے کہاکہ میرا ماننا ہے کہ کئی مقاما ت سے مجھے بچانے کے لئے مختلف مرتبہ کوششیں کی گئیں‘ پاکستان او رافغانستان دونوں کے ایک چھوٹی کھڑی والے مقامات پر مجھے رکھاگیاتھا۔
مسٹر ویکس نے کہاکہ ”میرا ماننا ہے اور میری امید درست ہے‘ وہ (اسپیشل فورس) چھ مرتبہ ہمیں لینے کے لئے ائیں اور کچھ گھنٹوں میں وہ چونک گئی“۔
انہوں نے ماہ اپریل کے ایک مشن کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ جب ان کے گارڈس سے ویکس سے کہاکہ ہمارے مخالف اسلامک اسٹیٹ (ائی ایس) گروپ کے دہشت گردوں کے حملے کی زد میں وہ لوگ ہیں۔
مسٹر ویکس نے کہاکہ ”میرا یہ ماننا ہے کہ وہ بحری بیڑھ تھا جو ہمیں لینے کے لئے آیاہوا تھا“۔ انہوں نے کہاکہ ”مجھے یقین تھا کہ ہمارے دروازے کے بلکل باہرو ہ تھے۔
حمل ونقل جب سرنگوں کے اندرشروع ہوئی‘ ہم ایک یادو میٹر زیر زمین تھے اور اگلے دروزاے کے سامنے ایک بڑا دھماکہ ہوا۔ہمارے گارڈس اوپر گئے او رمشین گن سے فائیرنگ شروع کردی۔
انہوں نے مجھے سرنگ سے باہر کھینچا اور نیچے گراکر زمین پر رول کردیا جس کی وجہہ سے میں بے ہوشی کے عالم میں چلا گیاتھا“۔
انہوں نے کہاکہ میں اس بات کو تسلیم کرتاہوں کہ ان کے گارڈس کسی کے حکم نامہ پر کام کررہے تھے اور وہ کوئی موقع نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ تمام گاڈرس سے میں نفرت نہیں کرتا‘ ان میں سے کچھ اچھے بھی تھے