طلاق ثلاثہ و حضانت

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی زوجہ ہندہ کو اپنی ہمشیرہ کے پاس جانے سے اس لئے روکدیا کہ اس کی ہمشیرہ کی زجگی ہوئی ہے وہاںہندہ کو کام کرنا پڑیگا۔ اور خود اپنی ہمشیرہ سے کہا کہ ہندہ اپنی چھوٹی بچی کو دودھ پلانا پڑتاہے بول کر نہیں آئی ہیں۔ جب یہ بات ہندہ اور انکی والدہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے زید سے پوچھا کہ خود آپ جانے سے روک کر وہاں جھوٹ کیوں بولے، الزام ہندہ پر لگادیئے کہ بچی کا حیلہ بناکر نہیں آئی۔ اس پر لفظی تکرار ہوئی اور زید غصہ کی حالت میں اپنی بیوی ہندہ کے نانا سے مخاطب ہوکر کہا کہ ’’میں ہندہ کو طلاق دیا۔میں ہندہ کو طلاق دیا۔میں ہندہ کو طلاق دیا‘‘۔ اس وقت ہندہ کی پھوپی حائل ہوکر زید سے کہیں کہ ذرا سونچ سمجھ کر کہو تم غصہ میں بول رہے ہونگے ایسا نہیں بولنا۔ تو شوہر نے کہا میں غصہ میں نہیں کہا ہوں بلکہ ہوش وحواس قائم رکھ کر کہا ہوں پھر اپنی خوشدامن صاحبہ اور بیوی ہندہ سے فحش کلامی کرتے ہوئے گھر کے باہر چلاگیا۔ اس وقت اس کے خسر بھی موجود تھے۔ایسی صورت میں کونسی طلاق واقع ہوئی اور رجوع کرنے میں کیا تدابیر اختیار کرنے ہونگے۔
۲۔ ہندہ کے بطن سے ایک لڑکا اور شیر خوار لڑکی ہے ان کی پرورش اور نفقہ کی ذمہ داری کس پر ہے جبکہ ہندہ کے پاس ذرائع آمدنی کچھ نہیں ؟بینوا تؤجروا
جواب : صورت مسئول عنہا میں ہندہ پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور تعلقات زوجیت بالکلیہ ختم ہوگئے۔ اب بغیر حلالہ ان کا آپس میں عقد جدید بھی نہیں ہوسکتا۔ یعنی ہندہ بعد ختم عدت (تین حیض) کسی دوسرے شخص سے عقد صحیح کرلے اور وہ شخص بعد صحبت و دخول مرجائے یا طلاق دیدے اور اس کی عدت بھی ختم ہوجائے تو تب کہیں شوہر اول (زید) سے دوبارہ عقد کرسکتی ہے۔ وزوال حل المناکحۃ متی تم ثلاثا کذا فی محیط السرخسی۔ عالمگیری جلد اول صفحہ ۳۴۸ اور ہدایہ کے کتاب الطلاق فصل فیما تحل بہ المطلقۃ میں ہے وان کان الطلاق ثلاثا فی الحرۃ و ثنتین فی الامۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ نکاحاً صحیحاً ویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنہا۔
۲۔ لڑکے کی عمر سات سال ہونے تک اور لڑکی بالغہ ہونے تک شرعاً ماں (ہندہ) کو حق حضانت حاصل ہے، بچی کو دودھ پلانے کی اجرت، دونوں بچوں کی پرورش کی اجرت اور ان کا خرچ یعنی لباس و دیگر حوائج کی تکمیل شرعاً باپ (زید) پر واجب ہے۔ والام والجدۃ احق بالغلام حتی یستغنی وقدر بسبع سنین… والام والجدۃ احق بالجاریۃ حتی تحیض عالمگیری جلد اول صفحہ ۵۴۲ اور بحر الرائق کے کتاب الحضانۃ میں ہے تجب علی الاب ثلاثۃ اجرۃ الرضاع واجرۃ الحضانۃ و نفقۃ الولد۔ فقط واﷲ اعلم
منقبت حضرت خواجۂ اجمیریؒ
دولت کی ضرورت کب ، کب شوقِ حکومت ہے
اجمیر کے خواجہؓ سے حاصل مجھے نسبت ہے
کچھ خوف نہیں مجھکو دُنیا کے حوادث کا
سر پر مرے خواجہؒ کا اب دامنِ رحمت ہے
قدرت نے تمہیں اپنی رحمت سے نوازا ہے
اندازِ کرامت پر ہر ایک کو حیرت ہے
ہر اک سے کہاں ممکن دربار میں آجائے
آتے ہیں وہی جن کی جاگی ہوئی قسمت ہے
خوابیدہ سہی مجھکو دیدار ہو خواجہؒ کا
یہ دل کی تمنا ہے، دل کی یہی چاہت ہے
ہوکر میں اسیرؔ اُن کے دربار میں آیا ہوں
دامانِ تہی میرا محتاجِ عنایت ہے