طلباء کی ذہن سازی اور شخصیت سازی میں عمدۃ المحدثین حضرت مولانا محمد خواجہ شریف ؒ شیخ الحدیث کا نمایاں کردار

   

حضرت عمدۃ المحدثین مولانا محمد خواجہ شریف رحمۃ اللہ علیہ سابق شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ ، مورثین کے صفات و کمالات کے حامل ، مکارم اخلاق سے متصف تھے ، آپ فکرسازی اور شخصیت سازی کے ہنر سے آشنا تھے ، آپ نفسیات کے ماہر تھے ، طالب علم کی ذہنی سونچ اور طبعی میلان کے مطابق اس کی اصلاح فرماتے نہایت خوش اسلوبی سے اس کے ذہن و دماغ کو موڑتے کہ وہ غیرشعوری طورپر غیرمتعلقہ چیزوں سے صرف نظر کرکے حقیقت الامر کی طرف متوجہہ ہوجاتا بلکہ طالب علم میں جستجوئے علم کا ایسا جذبہ بیدار کرتے کہ وہ زندگی بھر حصول علم میں سرگرداں رہتا ۔ اس کے دل میں علم و فن کی ایسی تشنگی پیدا فرماتے کہ زندگی کے کسی موڑ پر اس کو اطمینان کی کیفیت حاصل نہیں ہوگی بلکہ وہ زندگی کی آخری سانس تک اضافۂ علم کے لئے کوشاں رہتا ۔ بطور خاص طلباء کے ذہنوں میںمادر علمی جامعہ نظامیہ سے والہانہ عقیدت پیدا فرماتے ، اس کی علمی اور مالی ترقی و استحکام کے لئے توجہہ دلواتے ۔ طلباء کی پست ہمتی اور پژمردگی پر افسوس کا اظہار فرماتے اور ہمیشہ شوق ، ولولہ ، نشاط اور جولانی پیدا کرنے پر آمادہ کرتے ، تحریکی مزاج طلباء کی پذیرائی کرتے اور ان کو صحیح سمت میں موڑنے کے لئے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے ، ہمیشہ اشارہ اور کنایہ میں تربیت و اصلاح فرماتے جب کبھی کوئی خامی یا اخلاقی و فکری خرابی ملاحظہ فرماتے تو بالکل نظرانداز نہیں فرماتے ۔ اپنے خصوصی لب و لہجہ میں بروقت تنبیہ فرماتے ۔ یہ گنہگار ان سعادتمند طلباء میں شامل ہے جن کو حضرت عمدۃ المحدثین حضرت مولانا محمد خواجہ شریف رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ کی صحبت بافیض میں سالہا سال رہنے کا شرف حاصل رہا ۔ آپؒ نے اس خاکسار پر خصوصی عنایت فرمائیں ، ہر گام پر تنبیہ و اصلاح سے نوازا اور بھرپور محبتوں اور دعاؤں سے سرفراز فرمایا ۔
احقر جب عالم میں زیرتعلیم تھا تو آپؒ کے قائم کردہ ادارہ ’’المعھد الدینی العربی‘‘ میں پڑھنے کے لئے جایا کرتا تھا تو حضرت قبلہ ؒ طلباء میں عربی زبان و ادب پر قدرت پیدا کرنے اور اظہار مافی الضمیر کے ملکہ کو اُجاگر کرنے کے لئے طلباء کی ادبی نشست بنام ’’منتدی المعھد‘‘ کو قائم فرمایا اور مجھ کو ’’امین المنتدی‘‘ کا سکریٹری منتخب کیا چونکہ مجھے اس کا طبی ذوق تھا تو ’’منتدی المعھد‘‘ کے زیراہتمام کئی عربی پروگرامس کرنے کا موقعہ ملا جس سے حضرت قبلہ علیہ الرحمۃ کی بڑی خوشنودی حاصل ہوئی اور مزید قربت نصیب ہوئی ۔ جب ہم فاضل جماعت میں آئے تو آپؒ کے پاس ’’بخاری شریف ‘‘ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ فاضل کے دو سال اور کامل کے دو سال مکمل چار سال حضرت قبلہؒ کے ساتھ گزارنے کا موقعہ ملا ۔ یہی دور حضرت قبلہ ؒکے تصنیفی و تالیفی خدمات کا نمایاں دور تھا ، جس میں مجھ کو حضرت قبلہ ؒ کی ہر تصنیف کے وقت ساتھ رہنے اور استفادہ کرنے کا موقعہ ملا ۔ ہر پہلو پر آپؒ نظر فرماتے ، تدریسی اسلوب کو تبدیل کرنے اور طلباء کیلئے آسان جامع اور پرلطف بنانے پر زور دیتے ۔ تحریر میں خط کی خامی کو درگذر نہیں فرماتے ہمیشہ خط سنوارنے پر زور دیتے ۔ ایک مرتبہ میری تحریر دیکھ کر فرمایا کہ آپ اپنی الگ شناخت بنائیں، ہرچیز میں آپ کا خود کا امتیاز ہونا چاہئے کسی کی نقل کرنے کی کوشش نہیں کرنا ، حتی کہ جب میں نائب مفتی مقرر ہوا اور ہمارے فتاوے حضرت قبلہؒ کے پاس دستخط کے لئے جاتے تو آپؒ بغور جائزہ لیتے اور جب بھی ملاقات ہوتی تو آپؒ خط کی درستگی اور الفاظ کی بندش کی طرف توجہہ دلاتے اور مجھے زور دیتے کہ آپ فتاوی عالمگیری اور ’’ردالمحتار ‘‘ ابتداء تا انتہاء مکمل پڑھنا اس میں کوتاہی نہیں کرنا چاہئے ۔
طالب علمی کے دور میں یہ فقیر حضرت قبلہ علیہ الرحمہ کے ساتھ درس و دیگر پروگرام میں شرکت کرتا ۔ ایک مرتبہ میں نے سواری پر جاتے ہوئے اطلاع دی کہ فلاں پروفیسر کو اُن کے عربی زبان و ادب میں خدمات کی بناء Man of the Year کا خطاب دیا گیا تو حضرت قبلہؒ اس سے خوش ہوئے لیکن فی الفور مجھے فرمایا کہ یہ ٹھیک ہے لیکن آپ ان چیزوں کی طرف توجہہ مت کیجئے ۔ ایک مرتبہ عالم اسلام کے عظیم عالم دین مولانا ڈاکٹر حسن ھتیو جامعہ نظامیہ کے دورہ پر تھے اور ان کا جو اسلوب خطابت تھا وہ بہت مؤثر اور پرجوش تھا ، مجھ سے فرمایا کہ ’’ آپ اس طرح تقریر نہیں کرنا ‘‘، بعد میں احساس ہوا کہ مقرر جوانی میں تو شعلہ بیانی اور پرجوش انداز میں تقریر کرسکتا ہے لیکن اس اسلوب کو عمر ڈھلنے کے بعدباقی رکھنا صحت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ سیاست اخبار میں جو میرے مضامین چھپتے اس کا مطالعہ فرماتے لیکن کبھی خوشنودی کا اظہار نہیں فرماتے ایک عرصے کے بعد تحریر میں شاید پختگی محسوس فرمائے تو بہت خوش ہوئے اور مزید اُردو ادب کو سنوارنے پر زور دیا ۔ غرض حضرت قبلہؒ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر نظر رکھتے اور ہماری اصلاح فرماتے ۔ حتیٰ کہ وہ ہماری چال ڈھال نشست و برخواست پر بھی نظر رکھتے اور حسب ضرورت رہنمائی فرماتے۔ آپؒ کی غذا بہت مختصر تھی ، دو چار نوالوں سے زیادہ تناول نہیں فرماتے اور جب کبھی ساتھ تناول کرنے کا شرف حاصل ہوتا مجھ کو مزید تیز کھانے پر زور دیتے ۔ ایک مرتبہ میں جامعہ نظامیہ میں حوض پر وضو کررہا تھا اور حوض کے سیدھے جانب سے حضرت قبلہ تشریف لارہے تھے جس وقت آپؒ پہنچے میں وضو سے فارغ ہوچکا تھا ، دست بوسی کا شرف حاصل ہوا آپؒ نے کسی تمہید اور گفتگو کے بغیر فرمایا کہ دیکھو تم نظامیہ نہیں چھوڑنا الا یہ کہ اﷲ تعالیٰ تم سے قوم کی قیادت کا کام لے ، اور آپؒ تشریف لے گئے ۔
جب ۲۰۱۲؁ ء میں میں نے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا تو حضرت قبلہؒ میرے اس فیصلہ سے بالکل خوش نہیں تھے اور بار بار ارادہ ترک کرنے کا حکم فرمارہے تھے بالآخر حضرت قبلہ ؒغریب خانہ پر تشریف لائے اور والد گرامی سے فرمایا ان کی ضرورت یہاں پر زیادہ ہے، والد گرامی نے بڑے ادب و احترام سے عذر پیش کیا اور بتایا کہ سالہا سال سے یہ کارروائی جاری رہی اس لئے اس فیصلہ کو ملتوی کرنا مشکل ہے لیکن حضرت قبلہؒ اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئے جب میں نے آخری دن حضرت قبلہؒ سے ملنے کے لئے آپؒ کے اجلاس پر حاضری دی جبکہ آپؒ درس حدیث میں مشغول تھے اس وقت بھی یہی فرمایا کہ جامعہ نظامیہ مت چھوڑو ۔ میں نے اپنی رغبت ظاہر کی کہ میں انگریزی زبان پر قدرت حاصل کرنا چاہتا ہوں اس لئے میرا جانا ناگزیر ہے ۔ الغرض حضرت قبلہؒ سے رابطہ ہمیشہ رہا ۔ جب کبھی امریکہ سے چھٹی پر آتا حضرت قبلہؒ سے استفادہ کرتا اور حضرت قبلہؒ ضرور وقت عنایت فرماتے۔ جب میں نے امریکہ کے احوال ذکر کیا اور یہودیت اور عیسائیت پر اپنے معلومات پیش کیا ، اسلام پر اُن کے اعتراضات پر حضرت قبلہؒ سے استفسارات کیا تو حضرت قبلہؒ میری اس خدمت سے بہت خوش ہوئے اور تبلیغ اسلام کے لئے جس نہج پر تیاری کی ضرورت ہے تفصیل سے رہنمائی فرمائی۔ علاہ ازیں میرے جو ذہنی اشکالات ہوتے جن کا حل مجھے دشوار ہوتا ایسے استفسارات میں نوٹ کرکے رکھتا اور جب حیدرآباد آتا حضرت قبلہ ؒسے اس کا حل طلب کرتا ، میرے لئے یہ سعادت کی بات تھی کہ جب مرض الموت میں تھے دولت خانہ پر حاضری کا موقع ہوا دست بوسی کا شرف حاصل ہوا ۔ حضرت قبلہؒ نے دعاؤں سے سرفراز فرمایا یکایک طبیعت ناساز ہوئی اور آپؒ کو ددواخانہ منتقل کیا گیااور آپؒ نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔ اس طرح اہل خانہ کے علاوہ حضرت قبلہ علیہ الرحمہ نے آخری گفتگو اسی خاکسار سے فرمائی ۔
اﷲ تعالیٰ آپؒ کی قبر کو نور سے بھردے اور ہم کو آپؒ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ طہ و یسین