دہلی ملک کا دارالحکومت ہے،مرکزی حکومت کے ذمہ دار ن صرف دارالحکومت کی حفاظت بلکہ ملک کی ساری ریاستوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، حکومت کی اولین ذمہ داری ملک میں امن و آمان کی برقراری ہے ، اس عظیم مقصد کیلئے حکمرانوں کا متعصبانہ ذہن سے پاک ہونا ضروری ہے، تعصب ،نفرت کو ہوا دیتاہے،جس سے بھائی چارہ کو شدید نقصان پہنچتا ہے ، تعصب اپنے اور پرائے کے فلسفہ کو پروان چڑھاتااوردونوں کے درمیان نفرت کی لکیر کھینچتاہے آزادی کے بعد ملک کی تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک کے بعض غیر مسلم شرپسند عناصر نے ہمیشہ یہی کھیل کھیلا ہے ،تعلیم و تربیت کی بڑی اہمیت ہے اور ملک میں اس کا بڑافقدان ہے ، غیر تعلیم یافتہ افرا د اپنی جہالت کی وجہ ہمیشہ استعمال ہوتےر ہےہیں،غیر سماجی و غیر انسانی مزاج کے حامل شرپسند لیڈرس اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں،کیونکہ جاہل اور ان پڑھ افراد ہی ان کے ہتھے چڑھتے ہیں، سیکولر دانشورو ں کا تجزیہ یہ ہے کہ اس وقت دہلی میں جو فسادات رونما ہوئے اس میں اشتعال انگیز تقاریر کا بڑادخل ہے، سادہ لوح ان پڑھ افراد بہت جلد مشتعل ہوجاتے ہیںجس سے ملک کے امن و آمان پر کاری ضرب لگتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کے بارے میں عدلیہ نے بھی سرزنش کی ہے ،نفرت انگیز تقاریر سے متاثرتعلیم و تربیت سے عاری غیر مقامی غیر مسلم شرپسندوں نے منصوبہ بند شیطانی کھیل کھیلا اور ایسی درندگی مچائی کہ اس کی گونج ساری دنیا میں سنی گئی،سچ بات سننے کےلئے اگر ہمارے کان آمادہ ہیں ،ہماری آنکھیں سچ دیکھنے اور ہمارے ذہن سچ سونچنے کے قابل ہیں تو پھر یہی بات سچ ہے کہ ساری دنیا میں بھارت کی شبیہ داغدار ہوئی ہے،اور ہمارے سیکولر ملک کے وقار کوسخت دھکا لگاہے،یہ بھی کہ بہیمیت کا ننگاناچ ناچنے والے مقامی غیر مسلم نہیں تھے بلکہ دوسری ریاستوں سے نفرت کے وائرس زدہ شرپسند غیرمسلم دنگائی بلائے گئے تھے ، جن کیلئے قیام و طعام و دیگر سہولتوں کاانتظام رکھا گیا تھا،۱۳۔مارچ ۲۰۲۰ء کی اخباری اطلاع کے بموجب دہلی میں فساد کے دوران جن افراد کو بے رحمی سے زدوکوب کرکے قتل کیاگیا ہے وہ اکثر مسلمان ہیں،چار نعشیں نالوں سے برآمد ہوئی ہیں ،جن میں عامر علی ۳۱سالہ ، ہاشم ۱۹سالہ جو اپنی جان بچانے اپنی نانی کے گھر آئے تھے مشرف نامی جن کو فسادیوں نے ان کی بیوی بچوں کے سامنے قتل کیا اور عقیل احمد کے نام شامل ہیں ،اس جرم کی پاداش میں جن کو گرفتار کیا گیا ہے وہ غیر مسلم ہیں میڈیا نے پنکج، شرما، لوکیش ، انکت کے ناموں کی نشاندہی کی ہے ،اسی طرح ۸۵سالہ معمر خاتون کو ان کے گھر میں گھس کر زندہ جلانے کے جرم میں دو بھائی ارون ۲۶سالہ ورون ۲۲ سالہ کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے ،ایک اور معمر خاتون اکبری کو بھی زندہ جلادیا گیا ہے، مشتعل ہجوم نے ۲۵فروری کو اس خاتون کے گھر کو آگ لگائی تھی ،اشیاء کے ساتھ خاتون کی نعش بھی پوری طرح جھلس گئی تھی،شرپسندوں کے ہجوم نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ جلانے سے قبل اس مکان سے آٹھ لاکھ روپئے نقد سونے و چاندی کے زیوارت بھی لوٹ لیئے ، تفتیش کے دوران مجرمین نے اقبال جرم کرلیا ہے ، اس کے علاوہ اقلیتوں کی بستیوں کی بستیاں جلا کر خاکستر کردی گئی ہیں ، یہ واقعات سیاہ قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والوں اور مسلم اقلیت کو بے قصور ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں، یہ با ت بالکل درست ہے کہ دہلی کے غیرمسلم بھائی بھی نردوش (بے قصور ) ہیںکیونکہ دہلی کے باشندے مسلم ہوں کہ غیر مسلم سب کے سب بھائی چارہ پر یقین رکھتے ہیں،جہاںان کی ملی جلی آبادیاں ہیں وہاں انہوں نے ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کیا ہے ،میڈیا کی اطلاع کے مطابق مسلم بستیوں میں چودہ سے زیادہ مساجد کو آگ لگائی گئی ہےاور مسلم بستیوں میں مسلمانوں ہی کی رہائش گاہوں اور تجارتی مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے، جان و مال کے ناتلافی نقصا ن سے مظلوم مسلمان ہی دوچارہوئے ہیں، اس شر پسندانہ فساد میں دہلی پولیس اپنے فریضۂ منصبی کو نبھانے میں سنجیدہ ہوتی تو غیر مقامی شرپسندوں کو دہلی میں داخل ہونے کاموقع ہی نہیں ملتا،اس میں اگر کوئی کوتاہی ہوگئی ہوتو فساد پرقابو پاکر پولیس اس کی تلافی کرسکتی تھی اور اس آگ و خون کے کھیل پر قابو پانے کی غیر متعصبانہ جدوجہد کرتی تواس کے کردار پرکوئی آنچ نہ آتی اور بڑی حد تک سوالات بھی نہ اٹھتے اور جان و مال کے غیر معمولی نقصانات سےپرامن شہری محفوظ رہتے ،لیکن افسوس سوشیل میڈیا سے جو حقائق تصویروں اور ویڈیوکلپس کے ذریعہ سامنے آئے ہیں اس میں پولیس کا دوشی (قصوروار)ہونا عیاں ہے،فسادیو ں کے شانہ بہ شانہ اقلیتوں پر ظلم ڈھانا اور ان کے جان و مال کے درپئے ہونے والے فسادیوں کے ساتھ فساد مچانا اور فسادیوں کا ساتھ دیتے ہوئے سی سی ٹی وی کیمروں کی توڑ پھوڑ کیا یہ ساری تفصیلات پولیس کے دوشی(قصوروار) ہونے کیلئے کافی نہیں ہیں ؟
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جو جو فساد مچانے کے ذمہ دار ہیں ،خواہ وہ پولیس کے ذمہ دار ہوںیا نفرت و تعصب کےپروردہ انسانی بھیڑئےہوں حکومت ان کو گرفتار کرتی اورعدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مجرمین کی سخت گرفت کرتی اور ان کو عبرت آمیز سزا دیتی ،فسادات پر قابو پانے کی یہی ایک صورت ہے ،جس سے شرپسندو ںکے حوصلے پست ہوتے ہیں اور ان کوپھر کبھی پرامن سماج میںفساد مچانے کی جرأت نہیں ہوتی لیکن حکومت کے ذمہ داروں نے نہ صرف آنکھیں موند لیں بلکہ شرپسند عناصر کادفاع کرنے میں لگ گئے ، دہلی کے فسادات میں یہی کچھ ہوا ہے ،مظلوموں کے بجائے ظالموں کا دفاع کسی بھی جمہوری ملک تو کیا غیر جمہوری ملک کے حکمرانوں کو بھی زیبا نہیں جوانسانی احترام پر یقین رکھتے ہیں اور جن میں شرافت کی بو باس ہوتی ہے ،یہ بات خوش آئند ہے کہ، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مظلوموں کے دفاع میں اپوزیشن پارٹیاں اٹھ کھڑی ہوئیںاور بھرپور مدافعت کی لیکن افسوس حکمراں جماعت کے قائدین نے اس حقیقت کوالٹ کرکے پیش کیا،سیاہ قوانین کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والے اور ان کا جمہوریت پسندانہ ساتھ دینے والے اپوزیشن قائدین ہی کے گلے میں فساد مچانے کا طوق ڈال دیااورانسانیت کوشرمسار کرنے والے کھیل میں معاونت کرنے والے اور فساد مچانے والے پولیس والوں کے خلاف نہ صرف یہ کہ وزیر داخلہ نے کچھ سننا نہیں چاہا بلکہ ان کی بھرپور ستائش کرکے ان کی پیٹھ تھپتھپائی ہے ،جس سےشرپسندوں کی ظالمانہ غیر انسانی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے ،اب کون ہے جو پولیس پر ثابت شدہ الزامات کی جانچ کروائے؟مظلوموں پرفرضی کہانیاں گھڑ کے ظلم کا کھیل کھیلنے والے اس دنیا میں ظالموں کا اکثر یہی وطیرہ رہا ہے ،نفرت کی جو آگ لگائی گئی تھی ،وہ ایسی بھڑکی کہ تین دن تک دہلی کے بعض علاقے آتش فشاں کی طرح آگ اُگلتےرہے آگ کے شعلو ں کی لپیٹ نے سب کچھ جلاکر خاکستر کردیا اس طرح ملی جلی آبادیوں میں صرف نشان زد مسلم مکانات و دکانات اور ان کی عبادتگاہو ں کو لوٹا اور جلایا گیا،کیا یہ فسادیو ں کی شناخت کیلئے کافی نہیں ہے ؟
دہلی فساد کا قابل تعریف پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے علاقوں میں غیر مسلم عبادتگاہوں کی حفاظت کی اور ان کی کسی عبادتگاہ کو گزند پہنچنے نہیں دیا، الغرض ہندو،مسلم یکتا کے انگنت واقعات کی تفصیلات بھی سوشیل میڈیا سے عام ہوئی ہیں،جونفرت و تعصب پھیلانے کے بیچ محبت و بھائی چارہ کی ایک روشن کرن ہے جونقصان اٹھانے والے مسلم اقلیتی طبقہ اورسیکولر شہریوں کو امید کی روشنی دکھاتی ہے ،اور مایوسی کے اندھیرے سے نکالتی ہے ۔انسانی شرافت کے مغائر درندگی کے کھیلے جانے والے کھیل انسانیت کو شرمسار کرتے ہیں، انسانیت اور شرافت جہاں ہوگی وہاں حیاء ضرور ہوگی حیا ایک ایسا وصف ہے جو انسانوں کو گناہو ں اور جرائم سے پاک رکھتا ہے ،حدیث پاک میں وارد ہے حیا نہ ہویعنی انسان میں جب حیاء کی کوئی رمق باقی نہ رہی ہو تو پھر انسان جو چاہئے کرتا پھرے ، اذالم تستحی فاصنع ماشئت (بخاری :۸،۲۹ )ایک اور حدیث پاک میں وارد ہے ، ظالم کے ساتھ چلنا بھی جرم ہے ، ومن مشى مع ظالم فقد أجرم،(المعجم الکبیری للطبرانی :۲۰،۶۱) حیاء کی صفت جن میں ہو وہ دانشمند کہلاتے ہیں وہ نہ تو ظلم کرتے ہیں نہ ظالموں کی معاونت کرتے ہیں کیونکہ ظالم کی اعانت بھی ظلم ہے ،ایک حدیث پاک کی شرح میں یہ لکھا ہے ، فمن أعان ظالما فقد ظلم، اس تناظر میں ظلم ڈھانے والے خواہ حکومت یا پولیس کے افراد ہوںیا عام شرپسند شہری سب کے سب ظالم قرار پاتے ہیں، کائنات کا خالق و مالک ظالموں کو مہلت ضرور دیتا ہے ،لیکن دیر سویر ان کی ضرور گرفت فرماتا ہے ،یہ مقولہ مشہور ہے کہ اللہ سبحانہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ،دنیا میںکئی ظالم آئے اور انہوں نے غرور و تکبراوراپنی شیطانی انا کے گھمنڈ میں ظلم و جور کی ایسی داستاں رقم کی کہ جنگل کے درندے بھی اس پر شرمسار رہے ،فرعون ونمرود، جیسے ظالم اپنے انجام کو پہنچے ،اللہ سبحانہ نے ان کوعبرت کاایسا نشان بنایا کہ ساری خلقت ان پر لعنت ملامت کرتی ہے، دنیا میں جب بھی ظالم ،ظلم کی کہانی دہرائیں گے ،تو ان کے نام بھی فرعون و نمرود جیسے سفاک ظالموں کی فہرست میں لکھے جائیں گے، اس کائنات میں ہمیشہ ظلم کی آندھیاں نہیں چل سکتیں ،جب بھی ظلم انتہاء کو پہنچتا ہے تو وہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے ،قدرت چاہتی یہی ہے کہ ہر تاریکی کے بعد اُجالاہو،اس دنیا میں ہر رات کے اختتام پر صبح کا سویرا نمودار ہوتا ہے ،اسی طرح ظلم و جور کی تاریکیاں بھی عنقریب چھٹیں گی،پھرسے بھارت میں عدل و انصاف کا اجالا پھیلے گا ۔اللہ کے بندے اللہ سے یہی امید رکھتے ہیں کہ ظلم وجور کی تاریکیوں کے بعد پھر سے امن و آمان کا نیا سورج طلوع ہوگا جو ساری دنیا پر اپنی روشنی پھیلا دیگااوردنیا پھر سے امن وآمان کاگہوارہ بن جائے گی۔