جمع و ترتیب : نذیر نادرؔ
واعظِ بااثر حضرت مولانا محمد حمید الدین حسامی عاقل قبلہ ؒ دیگر خصوصیات کے ساتھ ساتھ بَلا کے حاضر جواب اور ظریف الطبع تھے یہی وجہ تھی کہ آپؒ کے سامنے منہ زوروں کی زبانیں گنگ ہوجاتی تھیں۔ میڈیا کے نمائندے غیر ضروری سوالات سے ہچکچاتے تھے، دریدہ دہن معترضین کی جرأتیں ماؤف ہوجاتی تھیں اور مخالفین حق ’’ لاجواب ‘‘ ہوجاتے تھے۔ ظرافت سے بھرپور آپ کے بے شمار واقعات ہیں، راقم ( نذیر نادر ) نے استاذِ سخن حضرت رحمن جامی کی ایماء پر چند ظرائف قلمبند کئے ہیں، ملاحظہ فرمایئے !!
بچپن کے زمانے میں جب مولانا عاقل تیسری جماعت میں زیر تعلیم تھے کہ سنتِ عمامہ کی اتباع میں سفید عمامہ باندھنا شروع کیا، اس دور میں بس سے اسکول آتے جاتے تھے ، ایک مرتبہ چلبلے ساتھیوں نے بس رُکتے ہی آپؒ کے سر سے عمامہ نیچے گرادیا اور کھلکھلاکر ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ دیکھو پوٹلی گری ہے۔! مولانا عاقل نے پہلے عمامہ اُٹھایا، اُسے اچھی طرح صاف کیا پھر سر پر رکھ لیا اور اطمینان سے کہنے لگے ’’ یہ پوٹلی نہیں پوٹلا ہے ۔‘‘
٭ مولانا عاقل شہر کی ایک مشہور بستی سے گزررہے تھے کہ چند اوباشوں نے چیخنا شرو ع کردیا کہ ’’ سفید مرغا آرہا ہے‘‘ بار بار جب یہ آواز آنے لگی تو پھر مولانا کی آواز گونج اُٹھی ’’ یہ سفید مرغا کالی مرغیوں کے پیچھے جارہا ہے ۔‘‘
٭ مولانا عاقل سے ایک خاتون نے شکایت کی کہ مولانا ! میں نے سُنا کہ آپ عورتوں کو قبرستان جانے سے منع کرتے ہیں ، پھر خاتون کا لہجہ تلخ سا ہوگیا اور کہنے لگی آخر کیوں ؟ عورتیں قبرستان کیوں نہیں جانا ؟ ۔ مولانا نے جواب دیا :’’ جانا ، جانا ، ضرور جانا اور ایسا جانا کہ پھر واپس نہیں آنا ۔‘‘
٭ سگریٹ کے ایک شوقین نے مولانا سے سوال کیا کہ مولانا ! آپ کہتے ہیں کہ جنت میں سب کچھ ملے گا، جنتی جو چاہے گا سو پائے گا تو بتایئے کہ کیا جنت میں سگریٹ بھی ملے گا ۔؟ مولانا نے فرمایا ’’ ہاں ، ہاں ضرور ملے گا مگر اُسے جلانے کیلئے دوزخ میں جانا پڑے گا۔ ‘‘
٭ لفظ ِ’ جامعہ ‘ پر اعتراض کرتے ہوئے ایک معترض نے پوچھا کہ : مولانا ’ جامعہ ‘ یعنی یونیورسٹی کا اطلاق ایسے بڑے مدارس پر کیا جانا چاہیئے جہاں جملہ علوم کے شعبے موجود ہوں لیکن آج اس کا استعمال چھوٹے سے چھوٹے مدرسہ کے لئے بھی ہورہا ہے، یہ کسی بھی اعتبار سے غیر درست ہے۔حد تو یہ ہے کہ اب تو محلہ کے مکتب کو بھی ’ جامعہ ‘ کہا جارہا ہے۔ مولانا نے بڑے پیار سے کہا ’’ میاں ! مسلمانوں کا ہر گھر علوم اسلامیہ کا گہوارہ ہونا چاہیئے لیکن اس کا فقدان ہے ، اب ایسے ماحول میں ایک مسلم آبادی میں ایک چھوٹا سا مدرسہ بھی مرکز کا درجہ رکھتا ہے، اس معنی میں اس کو جمعہ کہتے ہیں کیا حرج ہے !! رہے بڑے مدارس جہاں جملہ علوم کے شعبے قائم ہیں اس لحاظ سے انہیں ’ جامعہ ‘ کہا جانا چاہیئے پھر اس کے بعد مزید فرمایا کہ ’’ سمجھے تو جامعہ نہیں تو جا میاں ۔‘‘
٭ ایک سفر کے دوران ایر پورٹ پر ایک زعفرانی سوامی ’’ مولانا عاقل ‘‘ کا چہرہ دیکھ کر مرعوب سا ہوا ، اور اندازہ کیا کہ یہ مسلمانوں کے امیر ( رہنما ) ہوں گے۔ کچھ دیر بعد قریب آیا اور دریافت کیا کہ کیا آپ مسلمانوں کے امیر ہیں ؟ مولانا نے فرمایا ، ہاں ! میں امیر ملت ہوں ۔ سوامی کو شرارت سوجھی بلکہ اس کی شامت آئی اور اس نے سوال کیا کہ آپ کا کوئی مدرسہ بھی ہوگا ؟ ۔ آپ نے جواب دیا، ہاں ہاں ہے ، سوامی طنزیہ گویا ہوا ’’ پھر تو خوب چندہ آتا ہوگا ، مولانا عاقل نے بے ساختہ کہا ’’ بے شک آتا ہے، آپ کے گمان سے بھی زیادہ آتا ہے ،اگر تمہیں بھی چاہیئے تو مدرسہ کھول لو ۔‘‘
٭ ایک ایسے وقت جب کٹر قسم کے ہندوؤں کی جانب سے یہ اعتراض کیا جارہا تھا کہ ’’ قرآن میں ہم کو کافر کہا گیا ہے ، آخر کیوں ؟ :‘‘ اس وقت مولانا عاقلؒ اپنے بیانات میں علی الاعلان جواب دے رہے تھے کہ ’’ جب کافر کا لقب اچھا نہیں لگتا تو پھر مسلمان ہوجاؤ ‘‘ ۔
٭ ایمرجنسی کے دور میں فیملی پلاننگ کے سلسلہ میں ڈاکٹر فخر الدین علی احمد نے علماء اور قائدین کا ایک اہم اجلاس طلب کیا تھا، جس کا مقصد تھا کہ مدعو اہل علم و دانش کو ہم خیال بنایا جائے۔ ڈاکٹر فخر الدین نے پُرزور تقریر کی اور کہا کہ قرآن و حدیث میں کہیں بھی نس بندی سے نہیں روکا گیا۔ حاضرین خاموش تھے، یہاں کوئی جرأت مندانہ اقدام شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے برابر تھا۔ مصلحت کا تقاضہ بھی تھا مگر مولانا عاقل اُٹھ کھڑے ہوئے اور نہایت بے باکی سے کہا کہ نسبندی کا عمل مغائر اسلام ہے اور نصوصِ صریحہ سے مدلل کرکے صدر جمہوریہ ڈاکٹر فخر الدین علی احمد کو لاجواب کردیا۔ مرکزی حکومت نے نعرہ دیا تھا ’’ اگلا بچہ جلدی نہیں، دو کے بعد کبھی نہیں ‘‘ جوابی نعرہ دینا اتنا آسان نہیں تھا، سنجے گاندھی ’ فیل بے زنجیر ‘ ہوچکے تھے۔ مگر مولاناعاقل نے کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر جوابی نعرہ دیا کہ ’’ اگلا بچہ ابھی ابھی ، بارہ کے بعد کبھی کبھی ‘‘ یہ نعرہ تھا یا کوئی اسرافیل کا صُور جس کی گونج پورے ملک میں پھیل گئی اور ایک کہرام سا مچ گیا۔مرکزی حکومت حرکت میں آگئی اور مولانا کی گرفتاری عمل میں آئی۔
٭ مولانا عاقل جب جیل پہنچے تو جناب سلیمان سکندر سے ملاقات ہوئی، سلیمان سکندر صاحب گویا ہوئے کہ مولانا ( عاقل صاحب ) میں جب سے جیل آیا ہوں روزانہ رات میں جس کو خواب میں دیکھتا ہوں صبح وہ شخص جیل میں آجاتا ہے، کل رات میں نے آپ کو دیکھا اور آج آپ … ۔ مولانا عاقل نے مسکراتے ہوئے کہا ’’ آپ ایسے خواباں دیکھنا چھوڑ دو۔‘‘
٭ جیل میں کوئی نو ماہ تک رہے لیکن رشد و ہدایت، وعظ و نصیحت، بیعت و ارشاد، سلوک و احسان، ذکر و فکر وغیرہ معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ قیدی بھی نمازی اور ذاکر ہوگئے ۔ ایک دن جیلر نے از راہِ مزاح مولانا سے پوچھا کہ ’’ کیا یہ سب ( قیدی ) سدھر گئے ؟ مولانا نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا ’’ ذرا چھوڑ کے دیکھو ! معلوم ہوگا ‘‘۔ بعد ازاں جیلر مسلمان ہوگیا۔
٭ کسی نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ مولانا بھی جیل کی ہوا کھاکے آئے ‘‘ ۔ مولانا نے جواب میں کہا تھا کہ ’’ ہم بھی جیل گئے تھے ، ہماری بھابی لے گئی تھی تو گئے تھے‘‘ ۔ سامعین سوچ میں پڑ گئے کہ بھابی کون ؟ مولانا بھانپ گئے اور بولے ارے وہی ’ بی جان بی ‘ سب سمجھ گئے بعض کی زبان سے بے ساختہ نکلا ’’ اندرا گاندھی ‘‘ ۔
٭ ایک سابق امریکی صدر نے برائے تحقیر اپنی ’ بلّی ‘ کا نام ’’ انڈیا ‘‘ رکھا جب اس کی خبر اخبارات میں چھپی تو مولانا عاقل نے شدید مذمت کی اور کہا کہ اگر کوئی ہندوستانی اپنے پالتو کتے کا نام ’’ امریکہ ‘‘ رکھے تو کیسا رہے گا ۔؟ ‘‘
٭ متحدہ آندھرا میں عزیز اور اعظم کے انکاؤنٹر کے بعد اُس وقت کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو سے ملاقات کیلئے علماء اور قائدین کا ایک وفد پہنچا ، جس میں مولانا عاقل بھی تھے، جب تحریر پیش کی گئی تو وزیر اعلیٰ اس کو اُلٹ پلٹ کرنے اور اس کو دیکھنے اور پڑھنے میں کافی وقت ضائع کررہے تھے، مولانا بول اُٹھے ’’ پڑھتا آج ‘‘ حاضرین چونک پڑے ، وزیر اعلیٰ نے فوراً محسوس کرلیا ۔
٭ متحدہ آندھرا میں جب پولیس کا رویہ تبدیل ہورہا تھا، وزیر داخلہ جانا ریڈی سے نمائندگی کے باوجود کوئی فرق نظر نہیں آیا تو انہوں نے سخت لہجے میں فرمایا کہ ’’ جانا ریڈی اب انجانا ریڈی ہوگئے ہیں‘‘ ہمارے شہر کے بعض اخبارات نے اسی کی سرخی بنائی اور پولیس کے متعصب رویہ کے خلاف بیانات شائع کئے۔
٭ تلگودیشم دور حکومت میں جب برقی کا مسئلہ درپیش تھا، مولانا عاقل نے کہا تھا کہ اب آندھرا پردیش ’’ اندھیرا پردیش ‘‘ بنتا جارہا ہے۔
٭ دہلی میں جب قرآنی اوراق جلائے گئے تھے تو ساری دنیا میں اس کی شدید مذمت کی گئی تھی اور ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس موقع پر مولانا عاقل نے کہا تھا کہ ’’ بیوہ کو غم زیادہ ہوگیا تو اپنی چوڑیاں خود ہی پھوڑ لیتی ہے۔اسی طرح ان (قرآنی نسخے جلانے والے) نالائقوں کا حال ہے۔
٭جب گاؤ ماتا کا عنوان بہت چل رہا تھا تو مولانا نے فرمایا تھا: گاؤ ’’ ماتا ‘‘ ہے تو کیا کُھلگا ’’ پِتا ہے ؟ ‘‘
٭ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر بعض غیر مسلم شرپسند عناصر کے بُغض و عناد پر مولانا نے فرمایا تھا : ’’ ایک مسلمان کے گھر میں اگر دس بچے ہیں اور ایک غیر مسلمان کے گھر صرف دو بچے ہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ معاف کرنا ‘‘ اس معاملے میں آپ (غیر مسلم ) کی کچھ بھی مدد نہیں کرسکتے ۔
٭ کسی زمانے میں مولانا کے حاسدین و مخالفین حد سے تجاوز کررہے تھے ہر طرف غیبت اور چغلی ہورہی تھی، اسی اثناء ایک مخلص نے آپ کو اس کی اطلاع دی۔ آپ نے اطمینان سے جواب دیا کہ بُرائی کرنے والوں کی نیکیاں میرے کھاتے میں آرہی ہیں اور میں یہی چندے کی نیکیاں لے کر جنت میں جاؤں گا۔
٭ ایک بے تکلف دوست نے کہا کہ مولانا ! آپ کروڑ پتی ہیں، مولانا نے جواب دیا ’ اچھا !! ’’ وہاں کے اکاؤنٹ پر نظر ہے شاید ‘‘ ویسے میں غریب ہوں مگر اللہ نے میری صورت امیروں جیسی بنائی ہے۔‘‘
٭ مولانا نے اپنے گھر کے قریب محلے سے گزررہے تھے کہ ایک اڑیل نوجوان نے اپنی گینگ سے کہا کہ وہ دیکھو ! نکلا ہوا بوڑھا جارہا ہے، مولانا اس کے قریب گئے اور کہنے لگے ’’ الحمد للہ میں نکل چکا ہوں، تم ابھی تک اٹکے ہو ؟ ‘‘
٭ ایک اجتماع سے واپسی کے دوران ایک گاؤں میں رُکے جہاں ایک مُرید کے پاس ٹہرے، مُرید نے جی جان سے دسترخوان چنا ، مگر چمچے رکھنا بھول گیا ۔ مولانا نے پہلے دسترخوان کا جائزہ لیا جب چمچے نظر نہیں آئے تو پوچھا ’’ میاں ! چمچے کہاں ہیں؟ نظر ہی نہیں آتے ! کیا یہاں چمچوں کی کمی ہے ؟ ‘‘ ۔
٭ ایک صاحب نے شکایت کی کہ مولانا! خواتین صرف ڈاڑھی والے مَردوں ہی سے پردہ کرتی ہیں ؟ بے ریش مَردوں کے سامنے بے حجاب آتی جاتی ہیں، مولانا نے فرمایا :’’ دیکھو ! دراصل خواتین صرف ڈاڑھی والوں کو ہی مرد سمجھتی ہیں اس لئے ان سے پردہ کرتی ہیں اور جن کا چہرہ چکنا ہوتا ہے وہ انہیں اپنی طرح سمجھتے ہیں ۔‘‘
٭ ایک خاتون نے اپنے شوہر کی ڈاڑھی پر اعتراض کرتے ہوئے سوال کیا کہ میرے شوہر ڈاڑھی رکھنے کی وجہ سے میرے باپ کے ہم عمر لگ رہے ہیں، کیا وہ ڈاڑھی منڈوا سکتے ہیں؟ ۔ مولانا بولے ’’ پھر تو وہ آپ کے بیٹے کی طرح لگیں گے۔‘‘
٭ ایک بخیل نے میزبانی کی، کھانے کے بعد مولانا عاقل جب ہاتھ دھونے لگے تو اس بخیل میزبان نے صابن آگے بڑھایا، مولانا مسکرائے اور بولے ’’ کھلایا ہی کیا باوا کہ ہاتھ دھونے کے لئے لیمو یا صابن کی نوبت آئے۔‘‘
٭ ایک جگہ ایک نوجوان کو دیکھا ہاتھ میں ناڑا (ازاربند) لئے جارہا ہے، مولانا نے کہا ‘ کہاں کا ارادہ ہے ؟ ۔ اس نے کہا میں لاولد ہوں، میں نے سنا کہ فلاں جگہ ناڑا باندھنے سے اولاد ہوگی، اس لئے اب میں وہاں ناڑا باندھنے جارہا ہوں۔ مولانا نے اُسے سمجھایا اور آخر میں کہا کہ ’’ میاں ! اولاد کیلئے ناڑا باندھا نہیں جاتا بلکہ …… ‘‘ ۔
٭ ایک سفر ذرا سا طویل تھا، راستے میں ساتھیوں نے بھوک محسوس کی، ایک ہوٹل کے سامنے کار رُکی، مولانا کار میں ہی بیٹھے رہے اور ساتھیوں نے ہوٹل کا رُخ کیا، کچھ دیر بعد واپس آئے، مولانا نے پوچھا کیا کھائے ؟ ساتھیوں نے بتایا کہ پوری کھائے، مولانا نے کہا پوری !! پورا کھانا تھا ‘‘
٭ ایک سفر میں ایک جگہ قیام فرمایا ، بعد نماز عصر بعض حضرات نے تفریح کی اجازت چاہی، آپ نے اجازت دے دی مزید کہا کہ کچھ کھا پی کے آنا نہ کہ پی کھا کے آنا ۔‘‘
٭ ایک عظیم الشان جلسہ میں مولانا عاقلؒ کی پُرلطف تقریر چل رہی تھی ہر مزاحیہ بات پر نوجوان تالیاں بجا رہے تھے، یہ سلسلہ بڑھنے لگا اسی اثناء مولانا نے ایک سبق آموز لطیفہ سنایا پھر کیا تھا تقریباً سامعین (بالخصوص نوجوان ) تالیاں بجانے لگے ۔ مولانا نے کہا ’’ تالیاں مت بجاؤ، تالیاں بجانا ہمارا کام نہیں ہے اگر کوئی بات اچھی لگی تو الحمد للہ، سبحان اللہ، ماشاء اللہ کہو ۔‘‘
٭سڑک کے کنارے ایک ٹوٹی ہوئی بوسیدہ دیوار کے سامنے چند نوجوان کھڑے ہوکر پیشاب کررہے تھے، مولانا کی نظر پڑی، ان کے فارغ ہونے کے بعد قریب بلاکر آدابِ طہارت سمجھائے، کچھ مان گئے اور کچھ شرارت پر اُتر آئے، اور بولے کہ پیشاب ایسا کچھ نہیں ہے، پانی کی طرح ہے ۔ مولانا نے کہا ’’ تو پھر صُراحی میں ڈال کر پی لو ۔‘‘
٭ اسلام میں ’’ مرد ‘‘کیلئے چار شادیوں کی اجازت ہے یعنی ’ مرد ‘ بیک وقت چار عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے مگر ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی پر سخت وعید بھی آئی ہے۔ اور موجودہ حالات تو ایسے ہیں کہ جہاں تمام اُصولوں کی پابندی کے ساتھ ایک بیوی کے ساتھ بھی نباہ ہوجائے تو بڑی بات ہے۔ وہاں دوسرے تیسرے اور چوتھے نکاح کی کہاں گنجائش ہوسکتی ہے۔ اس تناظر میں مولانا عاقلؒ کہتے تھے:
’’ ایک بیوی ایک شوہر، کیا ہی اچھی بات ہے
اور دو بیوی ایک شوہر، جوتا ، مُکا ، لات ہے
تین بیوی ایک شوہر، حالت ِسکرات ہے
چار بیوی ایک شوہر، ڈولا ہاتھوں ہاتھ ہے‘‘
٭ برتھ کنٹرول تحریک پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا عاقل نے فرمایا تھا کہ آج اس تحریک سے خود عورت بھی پریشان ہے اور زبان حال سے کہہ رہی ہے:
کیسی یہ حکومت ہے اور کیسے مرداں ہیں
دردِ زہ تو مجھ کو ہے اور ان کو درداں ہیں
٭ جوڑے گھوڑے کی رقم وصول کرنے والے اور بیویوں کی کمائی کھانے والے مَردوں کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا عاقل نے فرمایا تھا : ’’ دیکھو ! ایک مرغا جب جاتا ہے تو چار مرغیاں اس کے ساتھ چلتی ہیں، جب مرغا کوئی کیڑا دیکھتا ہے تو لپک کر اُسے اپنی چونچ میں پکڑ لیتا ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے مرغیوں کو کھلاتا ہے۔ جب مرغیاں کھاچکی ہوتی ہیں تو مرغا انہیں دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور خوشی میں اپنے پَر اُڑاتا ہے اور زور سے بانگ دیتا ہے، جس کا مطلب ہے بیوی کو کھلانا مرد کا کام ہے اور بیوی کا کھانا … ‘‘ اس سے سبق حاصل کرنا چاہیئے۔
٭ پولیس کے دوغلے سلوک پر کہا تھا :
بے درد مورے سیاں، شبنم کبھی شعلے
اندر سے بڑے ظالم ، باہر سے بڑے بھولے
٭ اتحادِ فکر پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا عاقلؒ نے فرمایا تھا : ’’ہمارے اور غیروں کے اتحاد میں بڑا فرق ہے ، غیروں کا اتحاد سنترے کی طرح ہوتا ہے کہ باہر سے ایک اور اندر سے الگ الگ‘ اور ہمارا اتحاد ’’ خربوز ‘‘ کی طرح ہوتا ہے یعنی باہر سے الگ الگ اور اندر سے ایک‘‘۔l