عدل ہرشیٔ کواس کی جگہ پررکھنے کا نام ہے،اس کے بالمقابل ظلم کا لفظ مستعمل ہے جس کے معنی کسی شیٔ کواس کے صحیح موقع ومحل سے ہٹادینے کے ہیں۔اس کائنات میں عدل کی سب سے اعلی صورت خالق کائنات کے حق سے متعلق ہے کہ انسان اللہ سبحانہ کی معرفت حاصل کرے ،اسی کے آگے سرجھکائے،اس کی ذات وصفات میں کسی کوشریک نہ کرے،اس کے برعکس کائنات کے خالق ومالک کی معرفت سے محرومی اورمعبودبرحق کے بجائے اس کی مخلوقات کے آگے خودسپردگی،انتہائی عقیدت اورمحبت کے اظہارکیلئے ان کے آگے جبہہ سائی اعلی درجہ کا ظلم ہے۔’’بے شک شرک ظلم عظیم ہے‘‘(لقمان:۱۳)حدیث پاک میں وارد ہے’’کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑاگناہ شرک ہے‘‘(السنن الصغیرللبیہقی:۱۳۵۵)الغرض ایمان باللہ اوراس کے تقاضوں کی تکمیل جہاں حقیقی عدل ہے وہیں مخلوقات سے متعلق حقوق اداکرنے میں بھی عدل مطلوب ہے۔عدل کی ضدظلم ہے،عدل ایک اعلی قدرہے جو انسان کوایک اعلی انسان بناتی ہے، عدل پسندکئی ایک انسان عادلانہ سماج تشکیل دیتے ہیں تاکہ ملتوں اورقوموں کا مزاج عدل وانصاف کا خوگربن جائے۔بیرونی دنیا میں ملک کی ساکھ بنائے رکھنے اوراندرون ملک افراتفری وخلفشارسے بچائواورجرائم کے سدباب کیلئے اس بات کو ترجیحی طورپریقینی بنایا جانا ضروری ہے ،اس حقیقت کوہرگزفراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ ملک میں عدل وانصاف کی حکمرانی ہی میں ملک کی سالمیت، اس کی بقاء اورا سکے جمہوری کردارکی حفاظت اورسارے شہریوں کی ترقی ،عروج اوربحیثیت مجموعی ملک میں امن وسلامتی کا رازمضمر ہے۔ہندوستان جوکبھی عدل وانصاف کیلئے معروف تھا لیکن اب وہ غیرمنصفانہ طرزحکومت کی وجہ اپنی شناخت کھوتا جارہاہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ملک میں جنگل کا قانون رائج ہے،خوف وہراس،نفرت وتحقیر کا جنونی ماحول حکومت وقانون کے ذمہ داروں کوآوازدے رہاہے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائیں اورملک کوبربادہونے سے بچائیں، مذہبی جنونی نفرت کی آگ بھڑکانے والوں پرلگام نہ کسی جائے توملک کی ترقی وخوشحالی اورملک میں امن وآمان کا قیام صرف ایک خواب بنکررہ جائے گا۔کس قدرافسوس کی بات ہے کہ ہرآنے والے دن کی صبح کا آغازانسانیت سوزواقعات سے ہورہاہے،کبھی رام کے نام سے ،کبھی مخصوص مذہبی نعروں جیسے ’’جئے شری رام‘‘ اورکبھی گائو ماتا کی رکھشاکے عنوان سے بے بس وبے کس اوربے قصور شہریوں پرہجومی تشددکا سلسلہ جاری ہے،کسی نہتے انسان پرہتھیاروں اورلاٹھیوں سے لیس شرپسندعناصرکا حملہ،بے رحمی سے زدوکوب کہ جس کی وجہ مظلوم وبے قصورشدیدزخمی ہوجائے یا موت کے منہ میں پہنچ جائے ایک بزدلانہ اورجنونی وحشیانہ جرم ہے۔ ایک اورجرم جوتھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے وہ خواتین پرڈھائے جانے والے مظالم ہیں،اکثربالغ ونابالغ انتہاء یہ کہ کمسن بچیوں کے اغواء ،عصمت دری اور بیدردی کے ساتھ ان کے قتل وخون کے واقعات جمہوریت اورانسانی اقدارکا منہ چڑھارہے ہیں۔اخباری اطلاع کے مطابق جنوری ۲۰۱۹ء تا ۳۰؍جون ۲۰۱۹ء کے درمیان 24,212ریپ کے واقعات درج ہوئے ہیں(سیاست ،۲۱؍جولائی یکشنبہ ،خصوصی شمارہ،ص:۶)الغرض اس وقت ملک ہندوانہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اوریہ دہشت گردی رام کا نام لیکرمچائی جارہی ہے،جہاں تک ہم نے رام کے حوالہ سے جوکچھ پڑھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے وہ انسانی آدرشوں پرقائم تھے،مریادہ پروشوتم(رحمت ومہربانی،نیکی واچھائی)جیسی اعلی صفات سے متصف تھے۔ان کے اخلاق وکرداربھی بے مثال تھے،عدل وانصاف کے ایسے حامی تھے کہ وہ ہرظلم کے خلاف سینہ سپرہوجایا کرتے تھے،رام کی کہانی میں ہندومذہب کے بعض طبقات کے نزدیک راکشس ذات کا بادشاہ راون ہے جوظلم کی علامت مانا گیا ہے ،اسکے خلاف رام نے لڑائی لڑی اوراس کا خاتمہ کرکے ظلم کے نشان کومٹادیا تھا،اس اساطیری فلسفیانہ داستان کی روشنی میں ہم تویہی سمجھتے تھے کہ رام نام ہے انسانیت کی اعلی قدروں کا،انسانوں بلکہ ساری مخلوقات سے پیارومحبت کا،عدل وانصاف کا،رواداری وحسن سلوک کا،امن وشانتی کا،اہنسا وآشتی کا۔ لیکن رام کے بھگتوں نے اپنے گفتاروکردارسے رام کی جوتصویرپیش کی ہے اس میں شروفسادہے، نفرت وحقارت ہے،دشمنی وعداوت ہے،ظلم وجورہے، انسانیت سوزی ہے،حیوانیت کوشرمسارکرنے والی ہلاکت وخونریزی ہے۔ملک میں اقلیتوں اوردلتوںکے ساتھ نفرت وحقارت ، دشمنی وعداوت کا کھلے عام غیرانسانی وغیرشریفانہ سلوک روار کھنے والے سنجیدگی سے غورکریں کہ کہیں وہ اپنے مذہبی اعتقاد کی روشنی میں رام بھگتی کے بجائے راکشس کے بھگت وپرستارتونہیں بن رہے ہیں؟راکشس (شیطان)کی راہ پرچلنے والے آیا رام کے بھگت کہلا سکتے ہیں یا راکشس کے؟
کامیاب حکمرانی امن وآمان کے قیام کے ساتھ حکومت وسلطنت کے فرائض نبھانے سے ممکن ہے،حکومت کی مسندکوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے ،تخت وتاج کی نازک ذمہ داریوں کا جن کواحساس ہوگا وہ اس کوخاردارجھاڑیوں سے کم نہیں سمجھیں گے۔ اس لئے دستورکی روشنی میں چند اصول وقواعدمتعین ہوں اوران کا عملا نفاذہواس کے بغیرایک جمہوری ملک کا تصورنہیں کیا جاسکتا۔ (۱)عادلانہ وانسانیت پسندانہ و صحت مندانہ افکارورجحانات پرمبنی نصاب تعلیم ونظام تربیت کا اعلی سطح پر انتظام کہ اسی سے کرئہ ارض چین وسکون ،امن وآشتی کا گہوارہ بن سکتا ہے(۲)حکمرانوں،امن وقانون کے ذمہ داروں اوررعایا کے درمیان کسی رکاوٹ کے بغیرمظلوموں کی دادرسی کیلئے ان کے دروازوں کا ہروقت کھلا رہنا اوران کاانصاف پسندانہ رول،کمزورومظلوم انسانوں کی دادرسی کا عاجلانہ نظم کہ جس سے ملک میں امن وآمان کے قیام کویقینی بنایا جا سکتا ہے۔(۳) ملک میں امن وآمان کی برقراری کیلئے مذہبی،نسلی،لسانی،طبقاتی،جغرافیائی حدبندیوں کی رعایت کے بغیرسارے شہریوں کے ساتھ عدل وانصاف کا قیام (۴)ملک میں امن وسکون کے ماحول کویقینی بنائے رکھنے میں بلا لحاظ مذہب وملت شرپسندعناصرکی گرفت اورحسب جرم بلاکسی رورعایت ملکی قوانین کا عاجلانہ نفاذ کا کہ اسی سے شروفسادتھمتا ہے ورنہ سماج کے چندشرپسندعناصرکا ظلم وفسادپورے سماج کوتباہی وبربادی کے دہانے پرپہنچاسکتاہے۔(۵)رعایا کی بنیادی ضرورتوںکی فراہمی جیسے مناسب روزگار، موزوں رہائش کا انتظام،علاج ومعالجہ کی ایسی سہولتیں جو رعایا کیلئے حسب ضرورت بلا کسی رکاوٹ کے مہیا ہوں۔(۶)رعایا کی جان ومال ،عزت وآبروکاایسا یقینی تحفظ کہ جس کی وجہ وہ بے خوف وخطرزندگی گزارسکیں(۷)رعایا کے امورومعاملات میں دلچسپی لینا اوران کے انجام دینے میں نرمی وشفقت کا برتائوکرنا اوروہ حکام جو اس کی خلاف ورزی کریں ان کا محاسبہ کرنا اورظلم کے مرتکب ہوں تو ان کی گرفت کرنا ،بوقت ضرورت بقدرجرم سزادینا تاکہ ناانصافی کو پنپنے کا موقع نہ مل سکے۔(۸)ملک کے خزانوں پرکڑی نظررکھنا اوران کوخردوبردسے بچانا،عوامی سرمایہ کی حکام ووزراء پر بے دریغ شاہ خرچی پرروک لگانا حکومت سے نوکرشاہی کا خاتمہ کرنا (۹)رشوت ستانی ،چوربازاری ،دھوکہ وفریب ،اشیاء خوردنی واشیاء ضروریہ میں ملاوٹ پرقدغن لگانا (۱۰)ملک کے انتخابات میں حصہ لینے والے افرادکا ہراعتبارسے پاکیزہ اخلاق،صاف وشفاف کردارکا حامل ہونا،جرائم میں ملوث داغدارافرادکوکسی بھی علاقہ سے قانونا نمائندگی کا حق حاصل نہ ہونا۔ان جیسے بنیادی حقوق و قواعد کی تکمیل حکمرانوں کا اولین فریضہ منصبی ہے،اسی سے ملک کے سیکولر کردار اورجمہوریت پسندانہ اقدار کی حفاظت کویقینی بنایا جاسکتا ہے اسی سے جمہوریت کے چراغ کو قوت وتوانائی ملتی رہے گی اورچراغِ جمہوریت تادیر فروزاں رہے گا۔ارباب حکومت جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈورہے اورعوامی خزانوں کی کنجیاں جن کے قبضے میں ہیں وہ اگر خوف خداوخوف آخرت سے بے نیازہوں ،ملک کی منفعت اورشہریوں کے مفادات کے بجائے ذاتی آرام وآسائش وشخصی مفادات ان کے ہاں قابل ترجیح ہوں ،ان کی سرپرستی ونگرانی میں جرائم پنپ رہے ہوں اورمجرموں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہو، طاقتورکمزوروں پرظلم ڈھارہے ہوں ، عصمتیں لٹ رہی ہوں ،عزت وآبروپامال ہور ہے ہوں،کسی خاص طبقے کی عبادت گاہوں کا تقدس مجروح کیا جارہاہوتوپھرجمہوریت کا چراغ گل ہونے میں دیرنہیں لگے گی۔ملک کا چمنستان جس میں ہرطرح کے رنگ وخوشبوکے پھول مہک رہے ہیںوہ مرجھاجائے گا ،یعنی کئی ایک مذاہب پرکاربند افرادبھائی چارہ میل ملاپ کے ساتھ رہتے ہوئے ملک کے حسن کودوبالا کررہے ہیں وہ داغدرہوجائے گا ۔سارے انسانوں ،ساری مخلوقات اورسارے نظام کائنات کے خالق ومالک نے جو بے مثل وبے مثال کلام قرآن مجیداپنے محبوب پیغمبرسیدنامحمدرسول اللہ ﷺپرنازل فرمایا ہے اس میں عدل وانصاف کوخاص اہمیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے’’اے رسول( ﷺ)جب آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں توعدل کا معاملہ کریں یعنی فیصلہ کرنے میں انصاف سے کام لیں بے شک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کوپسندفرماتا ہے‘‘(المائدہ:۴۲)آپ فرمادیجئے کہ مجھے تمہارے درمیان عدل کرنے کا حکم دیا گیا ہے (شوری :۴۵) اے ایمان والو!تم اللہ کی خاطرحق پرقائم ہوجائو،راستی اورانصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جائو،کسی قوم کی دشمنی تم کوانصاف سے نہ روکے ،عدل وانصاف سے کام لوکہ یہ تقوی کے قریب ہے(المائدہ:۸)