عاشق سیدالانبیاء حضرت سیدنا بلال حبشیؓ

   

مولانا الحاج قاری محمد مبشر احمد رضوی قادری
سرورکائنات، فخر موجودات سیدنا و مولانا محمد رسولﷺ سے جو مسلمان ایمان کی حالت میں ملاقات کا شرف حاصل کرے اور ایمان ہی پر ان کا خاتمہ ہو ، ان خوش نصیب ہستیوں کو ’’صحابی ‘‘ کہتے ہیں ۔ حجتہ الوداع میں صحابہ کرام ؓ کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی ۔ یہ اولوالعزم صحابہ چونکہ نگاہ نبوت کے انوار اور فیضان رسالت کے برکات سے بلاواسطہ مستفیض ہوئے ہیں اس لئے وہ بے مثال ہیں ۔ اُن ہی شمع رسالت کے پروانوں میں صحابی رسول حضرت سیدنا بلال ابن رباح حبشی ؓ ہیں جن کی کتاب زندگی کا ہر ورق بڑا زرین ، ارادوں میں استقلال ، جسمانی اعتبار سے قوی اور مضبوط واقع ہوئے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں اُمیہ بن خلف کے غلام تھے ، اُسی اثناء میں مشرف بہ ایمان ہونے کی وجہ سے اُس نے آپؓ کو بہت ستایا اور بڑے بڑے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ۔ اس کے باوجود آپؓ نے ہر قدم پر صبر کا مظاہرہ فرمایا ، آپؓ کی ثابت قدمی کو دیکھ کر حضرت سیدنا صدیق ابوبکرؓ نے کثیر رقم دے کر اُس ظالم و سفاک سے خرید کر اللہ ورسولؐ کی رضا کی خاطر حضرت بلال حبشیؓ کو آزاد کردیا ۔

تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جنگ بدر میں حضرت بلال حبشی ؓ، اُمیہ بن خلف کو چند انصاریوں کی مدد سے قتل کیا ۔ اس کے علاوہ تمام اسلامی جنگوں میں مجاہدانہ شان کے ساتھ جہاد فرمایا ۔ مسجد نبوی شریف میں موذن کی حیثیت سے بے مثال خدمات انجام دیئے ۔ حضور اکرم نور مجسم ﷺ کے وصال مبارک کے بعد فراق رسول ﷺ میں ہمیشہ اشکبار رہتے ،جدائی کا صدمہ نہ سہتے ہوئے آپؓ نے مدینہ منورہ سے نقل مقام فرماکر ملک شام میں سکونت اختیار کی ۔
ایک مرتبہ خواب میں حضور اقدسﷺ کی زیارت نصیب ہوئی ، قسمت کا ستارا چمکا ، دونوں عالم کے مالک و مختار ، اُمت محمدی ﷺ کے غمگسار نے محبت بھرے لہجہ میں فرمایا ’’اے بلال ! تم مدینہ منورہ کیوں چھوڑ دیئے ہو؟۔ بیقراری کے عالم میں خواب سے بیدار ہوئے اور فوراً اونٹ پر سوار ہوکر رخت سفر باندھا ۔ جب مدینہ طیبہ پہنچے تو شدت غم سے نڈھال ہوکر گرپڑے اور زمین پر لوٹنے لگے ، جب دل کو قرار آیا تو بارگاہ رسالت میں سلام کا نذرانہ پیش کیا ۔ حضرات حسنین کریمینؓ نے اذاں کی فرمائش کی تو آپؓ کی اذاںسے مدینہ میں کہرام مچ گیا ۔ یہاں تک کہ پردہ نشین خواتین اس ولولہ انگیز آواز سننے کیلئے گھروں سے باہر نکل پڑے عشاقان رسول کو دور نبوت کی یادیں تازہ ہوگئی اور وہ زار و قطار رونے لگے ۔ کچھ عرصہ بعد حضرت بلالؓ دوبارہ ملک شام واپس ہوگئے ۔

ایک مرتبہ حضور انور ﷺ نے حضرت بلال حبشیؓ سے نماز فجر کے وقت فرمایا کہ ’’ اے بلال مجھے بتاؤ کہ تم نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایسا کونسا عمل کیا ہے جس کی قبولیت کے متعلق دوسرے اعمال سے زیادہ امید رکھتے ہو کیونکہ میں نے جنت میں تمہارے جوتوں کی آہٹ سنی ہے ۔ حضرت بلال ؓ نے کہا میں نے توکوئی کام ایسا نہیں کیا جو دیگر اعمال سے زیادہ امید والا ہو ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ میں دن رات جب کبھی وضو سے فارغ ہوتا ہوں تو دو رکعت تحیتہ الوضو پڑھ لیتا ہوں ، یہ سن کر حضور اقدس ﷺ نے فرمایا اسی عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ مرتبہ عطا فرمایا ہے ۔ ۲ھ میں اذاں کی ابتداء ہوئی لیکن اس کے آغاز سے قبل حضور اکرمﷺ کو یہ فکر لاحق تھی کہ کس طرح لوگوں کو نماز باجماعت کیلئے بلایا جائے ۔ اس سلسلہ میں صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا ، مختلف تجاویز پیش کی گئیں لیکن حضور اکرمﷺ کوپسند نہیں آئیں ، مجلس مشاورت میں حضرت عبداللہ بن زیدؓ بھی شریک تھے ۔ مجلس کے اختتام پر وہ مسجد ہی میں سوگئے اور ان کو اذاں کے کلمات خواب میں سکھائے گئے ، صبح ہوئی تو بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص آیا جو سبز رنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھا ، اُس نے قبلہ رو کھڑے ہوکر یہ الفاظ زور زور سے پڑھ کر سنائے ، اس کے بعد تھوڑی دیر بیٹھ کر دوبارہ ان ہی الفاظ کو پڑھا اور قدقامت الصلوٰۃ کا اضافہ کردیا ، مجھے اپنا یہ خواب اچھی طرح یاد ہے ، یہ جملہ سن کر آقائے نامدار مدینہ کے تاجدارﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اچھا خواب دکھایا ہے اور یہ خواب حق ہے ۔ چنانچہ بہ حکم مصطفیﷺ حضرت عبداللہ بن زید ؓ نے حضرت بلالؓ کو کلمات اذاں سکھائے ، وہ زور زور سے بہ آواز بلند پڑھتے رہے ۔ صحابہ کرام اس اذاں کو سن کر بارگاہ رسالت میں دوڑتے ہوئے پہنچ گئے اور باجماعت نماز ادا کئے ۔ ایک مرتبہ حضرت بلال ؓ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے ، صبح کا وقت تھا سرورکونینؐ کھانا تناول فرما رہے تھے ، آپ ؐ نے حضرت بلالؓ کو فرمایا کہ کھانے میں شریک ہوجاؤ ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ آج میں روزہ رکھا ہوں ۔ ارشاد فرمایا کہ ہم اپنا رزق کھارہے ہیں اور بلال کا رزق جنت میں محفوظ ہے ۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ بلال تم کو معلوم ہے کہ روزہ دار کی ہڈیاں تسبیح میں مشغول رہتی ہیں اور اس کیلئے فرشتے استغفار کرتے ہیں ۔ حضرت بلال بن رباح حبشیؓ نے ۲۰ ہجری میں ترسٹھ سال عمر پاکر دمشق میں وصال فرمایا ۔