عالمی و ملکی سطح پر انسانیت کو جو چیلنجس درپیش ہیں سارے انسان ان سے سراسیمہ ، بے چین و مضطرب ہیں،ان چیلنجس کا حل اسلام کی فطری تعلیمات میں موجودہے ،دین اسلام گویا ایک نسخہ کیمیاء ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوںمیں ہے،مسلمان اس کے امین ہیں اس لئے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے کرنے کے دوکام ہیں،ایک داخلی محاذ پر کام کرنا دوسرے خارجی محاذ پر ، خارجی محاذ پر کامیابی کا انحصار داخلی محاذ کی اصلاح سے مربوط ہے ، خارجی طور پر مادی اسباب سے خواہ کتنے ہی لیس ہوجائیں کامیابی ممکن نہیں ، اللہ سبحانہ کا وعدہ ہے اگر مسلمان اللہ سبحانہ تعالیٰ کے دین کی مدد کریں گے تو اللہ سبحانہ ان کی ضرورمدد و نصرت فرمائیں گے اور ان کے قدموں کو حق پر جمائے رکھیں گے( سورہ محمد /۷) اور فرمایا تمہیں رنجیدہ و غمگین ہونے کی ضرورت نہیں ہے،تم ہی سربلند رہو گے ،اگر تم حقیقی معنی میں ایمان والے بن جائو(آل عمران ۱۳۹/) ۔ہمارے جمہوری ملک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی مسلمان بے وزن ہیں ،عالمی سطح پر مسلمان کمزور اور نہتے ہیں ،بڑی طاقتوں سے ڈرے سہمے ہیں ،سیاسی گہری بصیرت رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ مسلم ملکوں کے نظم و انصرام کی باگ ڈور اسلام و مسلم دشمن طاقتوں کے ہاتھوں میں ہے ،حکمرانوں کی حالت گویا شطرنج کے مہروں کی سی ہے وہی طاقتیں ان مہروں کو چلاتی ہیں، ایسی بے بسی و بے کسی کی حکمرانی بھی کوئی حکمرانی ہے، صرف ظاہری بھرم ہے ورنہ درپردہ سب کے سب مجبور وبے بس ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ دشمن طاقتوں کےآلۂ کار نہ بنتے اور ان کو خوش کرنے کیلئے اپنے بھائیوں پر ظلم ڈھانے کے بجائے دشمنوں کی سازش سے ان پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹے ہوںتو ان کے مددگار بنتے ۔ اللہ سبحانہ نے مسلم ملکوں کو پٹرول اور قیمتی معدنیات کےزمینی ذخائرسے مالامال رکھا ہے ،لیکن افسوس ان قدرتی وسائل پر بھی انہیں دشمن طاقتوں کا قبضہ ہے چونکہ ان کے سہارے کے بغیروہ اللہ سبحانہ کے عطا کردہ ان ذخائرسے استفادہ سے قاصر ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ قدرت نے جو وسائل حیات بخشے ہیں ،کسی اور کی مدد کے بغیر ان سے ملک و ملت اور انسانیت کوفائدہ پہنچاتے ظاہر ہے یہ کام ٹکنالوجی میں اعلیٰ درجہ کی مہارت کے بغیر ممکن نہیں تھااور مسلم ملکوں اور امت مسلمہ نے کماحقہ تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی ہونا تو یہ چاہئے تھا دینی و عصری علوم کی ایسی اعلیٰ جامعات قائم کی جاتیں جس سے اس ضرورت کو پورا کیا جاسکتا
اور علوم و فنون میںتحقیق و تجسس اوراس سے نئی نئی راہیں نکالنے والی نوجوان نسل کی ایک ایسی کھیپ تیار کی جاتی جو اپنوں ہی کی نہیں بلکہ اغیار کی بھی اس باب میں امامت و قیادت کا منصب سنبھالتی ، لیکن دولت کی فراوانی نے عیش و طرب کی دنیا میں غرق کردیا۔ دشمن طاقتوں کی اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے عداوت کوئی نئی بات نہیں ہے ،اسلام اور مسلمانوںکو نقصان پہنچانے بلکہ صفحہ ہستی سے مٹانے کی منصوبہ بندی بہت پرانی ہے ،۱۴۹۲ء میں اسپین پر حملہ پھر آگے بڑھتے بڑھتے ۱۹۲۴ء میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اسی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے ،دشمن طاقتوں نے صرف ملک ہی نہیں چھینے بلکہ ان کی علمی ،فکری ،تہذیبی و ثقافتی اقدار پر بھی ڈاکہ ڈالا، توحید کی امانت جو مسلم امہ کے سینوں کو حق و صداقت سے معمور رکھےہوئے تھی اور امت کے اجتماعی وجود کا شعور دل و دماغ کو گرمائے ہوے تھا،جس کی وجہ امت ایمان و یقین کی ایسی منزل پر فائز تھی جہاں کفریات و شرکیات ناروا رسوم و رواجات کا کہیں دور دور تک گزر نہیں تھا، کتاب و سنت کی نسبت ایسی مستحکم تھی کہ بے حیائی، بے غیرتی ، جنسی انارکی اور بیہودہ خرافات سے امت کا دامن داغدار نہیں تھالیکن دشمن طاقتوں کی مسلسل محنت نے اباحت پسندی کا ایسا زہر گھول دیا کہ اس کی مسمومیت سے جسم و جاں ہی مجروح نہیں ہوئے بلکہ ملت کا پورا جسد اس کے اثرات بد سے ناسور کی شکل اختیار کرگیا ،پھر دھیرے دھیرے یہ امت اپنے مذہب ،مذہبی اعتقادات ویقینیات ،پاکیزہ فطری اسلامی احکامات اور اس کی روح پرور تہذیب و ثقافت سے ایسی بے گانہ ہوتی گئی جیسے اس کا ان سے کبھی کوئی رشتہ ہی نہیں تھانتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کی عظیم نسبت رکھنے والی امت باطل کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور بے باکانہ مقابلہ آرائی کی ہمت کھوبیٹھی ،صداقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ حق کے علمبردار ابھی بھی آرام کی نیند سو رہے ہیں ،
اس کے برعکس باطل طاقتیں بیدار وبا خبر ہیں،باطل ادارے محنت و جاںفشانی کے ساتھ حق کے خلاف منصوبہ بند مہم پر لگے ہوئے ہیں،حقیقت پسندانہ اسلامی افکار و نظریات سے محرومی اورعلوم و فنون سے بیگانگی کی وجہ یہ امت علوم و فنون کی نئی دریافتوں اور سائنسی ایجادات واختراعات میں امامت و قیادت کا منصب کھوبیٹھی ہے اور دشمن کے بالمقابل مادی وسائل حیات و مادی آلات حرب تیاری اور ان کے جمع کرنے میں سخت ناکام رہ گئی ہے،اب کوئی حق کی سربلندی وباطل کی سرکوبی کا کیا کوئی خواب دیکھاجاسکتا ہے کہ جس کی تعبیر ہاتھ آسکے ۔ امت کی تباہی ذلت و مسکنت کسمپرسی و بیچارگی کے یہی وہ اسباب ہیںجن کی طرف عرصہ سے کوئی توجہہ نہیں دی گئی ،ایسی کوئی دردمند ،اعلی صلاحیتوں اور بلند اقدار و نظریات کی حامل قیادت بھی ابھرکر سامنے نہیں آسکی ہے جو پورے شعور و احساس کے ساتھ ملت ہی کی نہیں بلکہ انسانیت کی زبوں حالی پر کڑھتی اسلامی تعلیمات اور اس کی اعلیٰ قدروں سے انسانیت کو ایسے روشناس کراتی کہ وہ پھر سے اپنی گم گشتہ امانت توحید کی امین بن جاتی اورکائنات کے وسیع وعریض پہنائیوں میںغور وفکر کرکے قدرت کی نشانیوں کو آشکار کرتی اور نظام فطرت کے حسن وجمال پرجہالت و لاعلمی کے پڑے ہوئے پردےہٹاتی یہ کا م زمینی حد بندیوں تک محدود نہ ہوتابلکہ کرئہ ارض کے سارے خطوں میںرہنے بسنے والی اقوام تک یہ دعوت پہنچ جاتی اور ان کو معبودان باطل سے چھٹکارا دلاکر خدائے واحد کی بارگاہ میں پہنچاتی ،یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر دور میں حق و انصاف کا ساتھ بہت کم لوگوں نے دیا ہے ،لیکن اللہ سبحانوں کے یہاں قلت و کثرت کا اعتبار نہیںکیونکہ حق پرست گو کہ قلیل ہوں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد و نصرت سے وہ ہمیشہ باطل پرستوں پر گوکہ تعداد میں کثیر ہوںغالب رہے ہیں ۔کتاب و سنت کی روشنی میں مادی نقطہ نظر سے پوری امت مسلمہ کا اور تمام مسلم ملکوں کا آپسی اتحاد بڑی اہمیت رکھتا ہے، اللہ سبحانہ سے رجوع رہتے ہوئے اسلام و مسلم دشمن طاقتوں کو زیر رکھنے کی کوئی منصوبہ بندی کی جاتی ،لیکن افسوس یہ کام جیسے ہونا چاہئے تھانہیں ہوسکا ہے، دشمن طاقتوں کا بڑا منصوبہ فلسطین پر قبضہ جمانا تھااس مقصد کیلئے اسرائیل نے جو دہشت گردی مچائی ہے اور فلسطینیوں پر مسلسل مظالم ڈھائے ہیں،معصوم بچوں ،بے قصور پاک دامن مسلم بہنوں ، بیٹیوں اور نہتے و کمزور مردوں کو جیسی ظلم کی چکیوں میںپیسا ہے اور فلسطینیوں کی رہائش گاہوں اور ان کے وسائل حیات پر جو بم و بارود برسائے ہیںوہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور اب فلسطین کےیروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کی ٹرمپ کی جانب سے رچی گئی سازش نے پوری امت مسلمہ کے دل میں گھائو لگادیا ہے ، اس پر سارے عالم میں شور مچاہے لیکن سعودی عرب کی پالیسی شایدخاموشی میں رضامندی مانی جارہی ہے ،سیاسی مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ سعودی عرب یروشلم کے کم از کم ایک حصے کو اسرائیل کےقبضہ میں دینے کی حمایت کرتا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کی بھی تجویز دیتا رہا ہے۔دلوں کا حال تو اللہ سبحانہ ہی بہتر جانتے ہیںلیکن جو شواہد دنیا دیکھ رہی ہے اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ سعودیہ کی حکمت عملی مظلوم فلسطینیوں سے زیادہ ناجائز طورپر قابض اسرائیل کو فائدہ پہنچانے کی ہے ، اب اس کی کیا مجبوری ہے اس پر کوئی راز کے پردے پڑےہوئے نہیں ہیں بلکہ اس کا موقف بہت زیادہ واضح ہے، ہونا کیا چاہئے تھا اور ہو کیارہا ہے یہ محل نظر ہے،ملت اسلامیہ فلسطینی محاذ کی حامی ہے اور اس کی خواہش یہی ہے کہ ایسے احوال میں پورے مسلم ممالک حق پرستوں کی طاقت بن جاتے اور دشمن طاقتوں کا دفاع کرتے تو عجب نہیں آسما ن سے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہوتی ،مدد و نصر ت کے چشمے اللہ سبحانہ زمین سے اُبال دیتے ،اسلام کی تاریخ ہمارے سامنے ہے کمزور ایمان والوں کو جو ظاہری سامان جنگ بھی نہیں رکھتے تھے دشمن کے مقابلہ میں مطلوب عددی طاقت بھی ان کے پاس نہیں تھی محض ایمان و تقوی اخلاص و للہیت ،جذبہ ایمانی سے سرشارسرفروشانہ جذبات و احساسات کی قدرافزائی فرماتے ہوئے اللہ سبحانہ نے ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا،آج بھی یہی وہ نسخہ کیمیاء ہے جو امت مسلمہ کے دکھوں کا مداوا کرسکتا ہے۔ظالموںکے ظلم کے خلاف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد و نصرت کیلئے اس کی جناب میں رجوع ہوکر روتے گڑگڑاتے اور اللہ سبحانہ کی خوشنودی کے لئے اپنے بے قصور دینی بھائیوں پر ناحق ظلم ڈھانے یا ظلم کے ہمنوابن جانے کے بجائے مظلوموں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ،اللہ سبحانہ نے دشمنان اسلا م سے ہرگز نہ ڈرنے اور اللہ سے ڈرنے کی ہدایت دی ہے ۔ فَلَا تَخَافُوْهُـمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُـمْ مُّؤْمِنِيْنَ ( آل عمران /۱۷۵)اللہ سے ڈرنے والوں کو اللہ کے نافرمانوں سے ڈرنے کی اس لئے بھی ضرورت نہیں ہے کہ ایمان و تقوی کی بنیاد پر کتنی ہی بار ایسا ہوا ہے کہ اللہ کے حکم سے چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غلبہ حاصل کی ہیں۔ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَـةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْـرَةً بِاِذْنِ اللّـٰهِ (البقرہ:۲۴۹) ۔ ان حالات میں مسلم ممالک کے ساتھ دنیا بھر کے ممالک میں رہنے والی ملت اسلامیہ کو ٹھنڈے دل سے اپنا جائزہ لینے اور اجتماعی حکمت عملی طئے کرنے کی ضرورت ہے ،تاکہ خیرالقرون کی یاد تازہ ہواور اس مبارک دور کے جو علمی و روحانی نقوش تھے پھر سے انسانیت ان سے روشنی حاصل کرکے دوجہاں میں سرخرو ہو۔