عالمی دباؤ، داخلی مسئلہ اور گھٹنوں پر آئی حکومت

   

محمد ریاض احمد
سیاستداں، سائنسداں مفکر و دانشور، ادیب و شعراء، نوبل لاریٹس، میگیسے اور کورس پرائز و ایوارڈ یافتہ شخصیتوں، انفارمیشن ٹکنالوجی کی عالمی کمپنیوں کے سربراہوں سے لیکر طلبہ اور عام ہندوستانی سب کے سب شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کررہے ہیں۔ یوروپی یونین کی پارلیمنٹ کے 751 میں سے 626 ارکان نے بھی مودی حکومت کے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرتے ہوئے اسے مذہب کی بنیاد پر شہریت عطا کرنے والا قانون قرار دیا ہے اور اس ضمن میں پارلیمنٹ میں قرارداد بھی پیش کی۔ دنیا کی باوقار یونیورسٹیز بشمول آکسفورڈ، ہاورڈ، ایل ایم آئی ٹی، کولمبیا یونیورسٹی، ٹائمپر یونیورسٹی فن لینڈ، جاگلونین یونیورسٹی پولینڈ وغیرہ کے طلباء، اساتذہ اور اسکالرس ہندوستان میں مودی حکومت کی زیرقیادت اقلیتوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر برتے جارہے امتیازی سلوک، نفرت، تعصب و جانبداری کے خلاف آواز اٹھائی ہے خاص طور پر مذہب کی بنیاد پر جو شہریت ترمیمی قانون لایا گیا ہے اس کے خلاف عالمی سطح کی یونیورسٹیز میں احتجاج ہورہے ہیں یہاں تک کہ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کا تقابل ہٹلر سے کیا جارہا ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ، فن لینڈ، جرمنی، فرانس میں بھی انصاف پسند نوجوان مودی حکومت کے مخالف اقلیت اقدامات کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ 14 ڈسمبر کو لندن میں واقع ہندوستانی سفارتخانہ کے باہر منظم کردہ احتجاج میں 500 سے زائد مرد و خواتین نے حصہ لیا۔ برلن میں احتجاج کرنے والی کیٹ کہتی ہیں کہ سی اے اے کا معاملہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ کیٹ کو اس احتجاج کے بعد سوشیل میڈیا پر فحش کلامی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کیٹ کے خیال میں یہ دائیں بازو یا بائیں بازو کا مسئلہ نہیں بلکہ بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے اور ہر ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا تمام انسانوں کا فرض ہے۔ ایک بات ضرور ہیکہ ساری دنیا میں ہندوستان کی شبیہہ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اس کیلئے بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے ساتھ ساتھ مودی حکومت کی پالیسیاں اور اس کے سیاہ قوانین و متنازعہ بلز ذمہ دار ہیں۔ اس کی واضح مثال ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی شہادت اور پھر اس کے بعد پھوٹ پڑے فسادات ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے۔ ان کی املاک تباہ و برباد ہوئی۔ اس تباہی کیلئے کون ذمہ دار ہیں۔ ساری دنیا کو اچھی طرح معلوم ہے 2002ء میں گجرات فسادات کو بھی دنیا فراموش نہیں کرسکتی جس میں مسلمانوں کا انتہائی بیدردی سے قتل عام کیا گیا۔ ان کی نعشوں کو جلایا گیا تاکہ تمام ثبوت مٹ جائے۔ لڑکیوں اور خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی کے بے شمار واقعات پیش آئے۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے وقت عہدہ چیف منسٹری پر ہمارے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی فائز تھے۔ ان فسادات کے بارے میں اس وقت کے آئی پی ایس عہدیدار سنجیوبھٹ، آر بی سری کمار اور کے ایل شرما نے برسرعام مودی کی ریاستی حکومت اور فسادات برپا کرنے والے حملہ آوروں، قاتلیں اور غنڈہ گردی کی گٹھ جوڑ کے درمیان جو کچھ بھی کیا اور ناناوتی کمیشن میں جو بیانات دیئے اس تعلق سے بھی سب جانتے ہیں یہ اور بات ہیکہ ان انصاف پسند آئی پی ایس عہدیداروں کے بیانات کو دبانے کی کوشش کی گئی، ڈرایا دھمکایا گیا اور یہاں تک کہ گجرات فسادات میں مودی کو کلین چٹ دینے والے ناناوتی کمیشن نے ان دیانتدار پولیس عہدیداروں کے بیانات کو مسترد بھی کردیا جس سے اندازہ ہوتاہیکہ گجرات میں صرف مسلمانوں کا ہی قتل نہیں ہوا بلکہ انصاف کا بھی قتل ہوا ہے۔ قانون کا بڑی بے رحمی سے گلا گھونٹا گیا ہے۔ گلبرگ سوسائٹی قتل عام میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی بیوی ذکیہ جعفری آج بھی اس ناانصافی کے خلاف قانونی لڑائی لڑ رہی ہے۔ انہیں یقین ہیکہ اگر زمین والے انصاف نہیں کریں گے تو آسمان والا ضرور انصاف کرے گا اور وہ ایسا انصاف ہوگا جس میں مجرمین تازیانہ عبرت بن جائیں گے۔ بہرحال مودی جی کے عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد بیرونی ممالک میں ہندوستان کی شبیہہ مزید متاثر ہوگئی۔ ہجومی تشدد کے نام پر سو سے زائد مسلمانوں اور دلتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس کے خلاف ایمنسٹی انٹرنیشنل حقوق انسانی کے دیگر ادارے اور اقوام متحدہ میں آواز اٹھائی گئی۔ بے شمار ملکوں میں احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرتے ہوئے انسان دوست مرد و خواتین نے فاشزم کے خلاف آواز اٹھائی۔ دوسری طرف 5 اگست کو پارلیمنٹ میں اچانک اور عجلت سے ایک ایسا بل پیش کیا گیا جس کے ذریعہ ریاست جموں و کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت حاصل خصوصی موقف ختم کرتے ہوئے اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا، انٹرنیٹ پر پابندی عائد کردی گئی۔ افسوس صد افسوس کہ تین سابق چیف منسٹرس ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے بشمول ہزاروں سیاسی قائدین کو نظربند کردیا گیا۔ کثیر تعداد میں کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کردیا گیا۔ حد تو یہ ہیکہ سارے ملک کے ارکان پارلیمنٹ کو کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ دلالوں کے ذریعہ بیرونی ممالک کے بعض ارکان پارلیمنٹ اور سیاستدانوں کو کشمیر لاکر وہاں کی تفریح کروائی گئی جس پر دنیا بھر کے انصاف پسندوں نے آواز اٹھا کر یہ بتایا کہ مودی حکومت جمہوری اصولوں کو پامال کررہی ہے۔ کشمیر کے حالات پچھلے 6 ماہ سے کشیدگی سے پُر ہیں۔ اگر ہم 2014ء سے ملک کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہوتا ہیکہ ’’بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ‘‘ کا نعرہ دینے والے نریندر مودی کے اقتدار میں خواتین اور لڑکیاں محفوظ نہیں ہیں۔ ملک میں یومیہ اوسط عصمت ریزی کے 100 واقعات پیش آئے ہیں نتیجہ میں بیرونی ملکوں میں یہ کہا جانے لگا کہ ہندوستان خاتون سیاحوں کیلئے خطرناک مقام ہے وہاں ان کی عصمتیں لوٹے جانے کا بہت زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ بیرونی ملکوں میں یہ بھی تاثر پایا جاتا ہے کہ مودی حکومت بہتر حکمراں بالخصوص قانون کی حکمرانی میں بری طرح ناکام ہوگئی جس کے باعث مذہبی انتہاء پسندی کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا ہے۔ ہر معاملہ میں مذہب کو درمیان میں لایا جانے لگا ہے۔ جمہوریت دستور اور کثرت میں وحدت کے نظریہ کے خلاف من مانی اقدامات کئے جانے لگے ہیں۔ اقلیتوں، دلتوں اور خواتین میں احساس عدم تحفظ پایا جاتا ہے۔ بیرونی ممالک میں اب شہریت ترمیمی قانون این آر سی اور این پی آر کو لیکر برہمی پائی جاتی ہے۔ لندن، واشنگٹن، نیویارک، میونخ، وارسا، برلن جیسے دنیا کے اہم شہروں میں ہر روز احتجاجی مظارہے کئے جارہے ہیں۔ سی اے اے کے خلاف شاہین باغ میں ہزاروں خواتین کے احتجاج نے دنیا کی نظریں اپنی جانب کھینچ لی ہیں۔ کیرالا میں سی اے اے کے خلاف 70 لاکھ افراد نے جو انسانی زنجیر بنائی تھی اس پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سی اے اے جیسے سیاہ قانون اور این آر سی و این پی آر تخریبی اقدامات کے خلاف جہاں یوروپی یونین کی پارلیمنٹ کے 751 میں سے 626 ارکان نے 6 قراردادیں پیش کی وہیں لندن میں امبیڈکر انٹرنیشنل مشن (برطانیہ) اور ساوتھ ایشیاء سالیڈرایٹی گروپ کی جانب سے خصوصی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں اسٹیفن ٹمس، مسز کلانڈیا ویب، پیاٹ میک فیڈن جیسے ارکان پارلیمنٹ اور جان ہیلاری صدرنشین انٹرنیشنل لیازن آف دی لیبر پارٹی نے شرکت۔ دوسری طرف یوروپی یونین کی پارلیمنٹ میں سی اے اے کے خلاف 6 قرارداد پیش کئے جانے پر ہماری وزارت امورخارجہ نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ ہندوستان کا داخلی معاملہ ہے حالانکہ انسانی حقوق کا معاملہ داخلی نہیں بلکہ عالمی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر ہم آزادی کے بعد سے 2014ء تک کے ہندوستان اور پھر اس کے بعد کے ہندوستان کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہیکہ 6 برسوں کے دوران عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہہ متاثر کردی گئی ہے جبکہ اس سے پہلے تجارت ٹکنالوجی کے تبادلہ ملک میں انفارمیشن ٹکنالوجی کے انقلاب نے عالمی سطح پر ہندوستان کو ایک خاص شناخت اور پہچان عطا کی تھی۔ گاندھی جی کے پیام عدم تشدد اور مغل حکمرانوں کی تعمیر کروائی گئی تاریخی عمارتوں بشمول یادگار چھت تاج محل سے ہندوستان کی پہچان ہوا کرتی تھی لیکن آج مذہبی منافرت مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں پر مظالم، خواتین پر جنسی حملوں، مذہب کے نام پر انسانوں کے قتل، ناانصافی کیلئے ہندوستان کو پہچانا جارہا ہے۔ 1990ء کے اوائل میں ہندوستان حکومت کی متعارف کردہ معاشی اصلاحات نے عالمی سطح پر ہندوستان کو دنیا کی بڑی طاقتوں میں شامل کیا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی حیثیت سے ہندوستانیوں کا سر فخر سے اونچا ہوگیا۔ دنیا نے ہندوستان کو ایک تیزی سے ترقی کرتی معیشت اور ایسی قوم تسلیم کیا جہاں انگریزی بولنے والے تعلیمیافتہ پیشہ وارانہ ماہرین اور ان کی ٹکنیکی صلاحیتوں سے کہیں زیادہ اور ہمہ تہذیبی ملک ہونے ہندوستان عوام کے کھلے پن اور صبروتحمل کے حامل معاشرہ کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا اور عالمی سطح پر اس کی ستائش کی گئی لیکن 2014ء کے بعد ہندوستان کی شبیہہ میں تیزی سے منفی تبدیلیاں آنی شروع ہوئیں جس کا خمیازہ ہوسکتا ہیکہ آنے والے دنوں میں نوخیز ہندوستانی نسل کو بھگتنا پڑے گا۔ جیساکہ ہم نے سطور بالا میں ہندوستان کی بگڑتی شبیہہ کے اسباب لکھے ہیں ان میں پچھلے سال نومبر میں بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ، شریعت اسلامی میں مداخلت کی کوشش بھی شامل ہیں جن سے عالمی میڈیا میں ہندوستان کا منفی امیج ابھر کر سامنے آیا۔ تاہم حالیہ عرصہ کے دوران سی اے اے مخالف احتجاجی مظاہروں نے ہندوستان کی شبیہہ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ نیویارک پوسٹ، دی گارجین، واشنگٹن پوسٹ جیسے عالمی اخبارات اور دی اکنامسٹ جیسے عالمی جریدہ نے یہ واضح کیا کہ نریندر مودی حکومت کس طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کررہی ہے۔ عالمی میڈیا میں بی جے پی قائدین کی اشتعال انگیز اور نفرت انگیز تقاریر، بیانات کے حوالے بھی دیئے گئے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا جارہا ہیکہ کس طرح طلبہ اور سیکولر ذہن رکھنے والوں کے علاوہ اپوزیشن قائدین کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عالمی میڈیا میں یہاں تک کہا جارہا ہیکہ مودی اور بی جے پی ہندوستان جیسے سیکولر جمہوری اور سوشلسٹ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران یہ اطلاعات منظرعام پر آئیں کہ تقریباً 20 ملکوں کے سفراء اور سفارتکاروں نے سی اے اے پر اپنی گہری تشویش ظاہر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سی اے اے سے مسلمانوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ آپ کو بتادیں کہ آئی آئی ٹی مدراس سے ایم ایس کررہے ایک جرمن طالب علم JAKOB LINDENTHAL اور ناروے کے ایک سیاح کو صرف اس لئے ملک سے نکل جانے کا حکم دیا گیا کیونکہ دونوں نے مخالف سی اے اے احتجاج میں حصہ لیا تھا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ پر پولیس مظالم کی مذمت کی تھی۔ اس سے پہلے بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ جاپان کے وزیراعظم اور دیگر ملکوں کے اعلیٰ عہدیداروں نے ہندوستان کے دورے ملتوی کردیئے۔ سی اے اے مظاہروں کو دیکھتے ہوئے آسٹریلیا، امریکہ، فرانس، برطانیہ جیسے ملکوں نے اپنے شہریوں کو ہندوستان کا دورہ نہ کرنے کی ہدایت جاری کئے۔ بہرحال ایسا لگتا ہیکہ سی اے اے کے ذریعہ مودی حکومت نے ہندوستان کی امیج متاثر کردی ہے۔