عالمی یوم جمہوریت بھارت میں جمہوری اقدار میں گراوٹ، کیا بھارت میں جمہوریت محفوظ ہے؟

   

ایم ۔ڈبلیو۔ انصاری
(ریٹائرڈ۔آئی۔پی۔ایس)
حیدرآباد 14 ستمبر (پریس نوٹ) ہر سال 15 ستمبر کو دنیا بھر میں یومِ جمہوریت منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد عوام کو یاد دلانا ہے کہ جمہوریت صرف ایک سیاسی نظام نہیں بلکہ عوام کی امانت ہے، جو مساوات، انصاف، آزادی اور انسانی حقوق کی بنیاد پر قائم رہتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج بھارت میں واقعی جمہوریت کے یہ اصول زندہ ہیں؟ ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے، مگر زمینی حقیقت اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتی۔ آج ایک ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے جہاں جمہوریت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر بھیڑ جمع کر کے معصوموں کی جان لی جاتی ہے، کبھی بازاروں اور گلیوں میں زبردستی نعرے لگوانے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور کبھی ایک خاص طبقے کو طرح طرح کے قوانین اور سماجی دباؤ کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ سب وہ نشانیاں ہیں جو بتاتی ہیں کہ جمہوریت صرف کاغذوں میں باقی ہے، حقیقی میدان میں نہیں۔ جمہوریت ایک ایسا ہمہ گیراصول ہے جس میں لوگ اپنی مرضی سے طے کرتے ہیں کہ ان کا سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی نظام کیسا ہو، اور وہ زندگی کے ہر شعبے میں پوری طرح شریک ہوتے ہیں اور اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔Democracy: By the people, of the people, for the people یہ جملہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اقتدار کی اصل طاقت عوام کے ہاتھ میں ہے۔ جمہوریت میں حکمران کوئی آقا نہیں بلکہ عوام کے خادم ہوتے ہیں۔ اگر حکومت عوام کی مرضی سے نہیں چلتی، اگر فیصلے عوام کی رائے کے بغیر لیے جاتے ہیں، یا اگر قانون سب پر یکساں لاگو نہیں ہوتا تو وہ جمہوریت نہیں رہتی بلکہ تانا شاہی(Dictatorship)بن جاتی ہے۔یا یوں کہیں کی منتخب سرکار بھی ایک طرح سے Democratic Dictatorship بن جاتی ہے۔ جمہوریت کا مطلب یہ بھی ہے کہ سماج کے کمزور سے کمزور فرد کی آواز بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی طاقتور کی۔ ووٹ کی برابری اسی اصول کی عملی شکل ہے۔ ”By the people” یعنی عوام اپنے نمائندے چنتے ہیں، ”Of the people” یعنی حکومت کا وجود صرف عوام کے دم سے ہے، اور ”For the people” یعنی تمام پالیسی اور فیصلے عوامی فلاح و بہبود کے لیے ہونے چاہئیں۔ اگر کسی ملک میں یہ تینوں باتیں زندہ ہیں تو وہاں جمہوریت واقعی مضبوط ہے۔ یاد رہے کہ جمہوریت کی اصل روح عوام کے بنیادی حقوق ہیں۔ ہمارے آئین میں لکھا ہے کہ ہر شہری کو مساوات، اظہار خیال کی آزادی اور جان و مال کا تحفظ حاصل ہے۔ لیکن یہ حقوق تبھی زندہ رہیں گے جب عوام خود بیدار ہوں اور تعلیمی طور پر سماجی اور سیاسی شعور اپنے اندر پیدا کریں۔ غلامی کی زنجیریں کبھی خود نہیں ٹوٹتیں، انہیں عوام ہی توڑتی ہیں۔ اس لیے ہر بھارتی کو اپنے حقوق کی پہچان کرنی ہوگی اور ان کے تحفظ کے لیے کھڑا ہونا ہوگا۔ انتخابات کو ہی جمہوریت کا دوسرا نام سمجھ لینا ایک بڑی بھول ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے انتخابات واقعی جمہوری اصولوں پر پورے اترتے ہیں؟ حال ہی میں ووٹوں کی شفافیت اور انتخابی عمل کے حوالے سے گہرے شکوک پیدا ہوئے ہیں — خصوصاً EVM (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) سے متعلق بحث عام ہوئی ہے، اور عدالتوں میں اس بارے میں درخواستیں بھی دائر ہوچکی ہیں۔ سپریم کورٹ نے بعض معاملات میں EVM کے خلاف عرضیوں کو خارج کیا ہے، مگر عوامی اعتماد بحال رکھنے کے لیے مزید شفافیت، اور وضاحت کی ضرورت کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح EVM اور ECI گہرے شکوک کے دائرے میں ہے۔ اسی تناظر میں الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں کی آزادانہ حیثیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں — چند جگہوں پرانتخابی فہرست کی اصلاح یا ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں پر اعتراضات سامنے آئے ہیں، اور سیاسی حلقوں کی طرف سے ادارہ جاتی غفلت یا تاخیر کی شکایات بھی درج ہیں۔ تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ اگر الیکشن کمیشن، تحقیقات کے ادارے اور عدلیہ مکمل طور پر آزاد و غیرجانبدار نہ رہیں تو جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے پر خطرہ ہے۔ ایسے حالات میں اظہارِ رائے اور قانونی چینلز کے ذریعے سوال اٹھانا، شفافیت کا مطالبہ کرنا اور عوامی بیداری لازمی ہے — کیونکہ جمہوریت کی حفاظت کا سب سے بڑا ہتھیار باشعور اور متحرک شہری ہی ہیں۔لیکن جب امیدوار دولت اور طاقت کے زور پر میدان میں اترتے ہیں، جب ووٹ ڈالنے والوں کو مذہب اور ذات کے نام پر بانٹا جاتا ہے، جب انتخابی وعدے محض جھوٹ اور فریب ثابت ہوتے ہیں تو پھر کہاں کی جمہوریت اور کہاں کا عوامی اختیار؟ جمہوریت میں ووٹ کی طاقت سب سے بڑا ہتھیار ہے، لیکن اگر عوام ہی اپنے ووٹ کو عقل و شعور کے بجائے جذبات اور لالچ کے ہاتھ بیچ دیں تو پھر جمہوریت کا قتل عوام کے ہاتھوں ہی ہو جاتا ہے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پچھلے انتخابات میں جتنے جھوٹے وعدے کئے گئے اور جھوٹ بولا گیا اتنا جھوٹ اور غلط بیانی پہلے کبھی نہیں کی گئی۔ یومِ جمہوریت کا ایک اور سبق یہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی انسانی حقوق کی پامالی ہو، وہاں ہماری آواز بلند ہونی چاہیے۔ فلسطین آج جمہوریت اور آزادی کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ وہاں کے مظلوم عوام اپنی زمین، اپنی شناخت اور اپنے جینے کے حق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ بھارتیہ عوام کو بھی اس جدوجہد سے سبق لینا چاہیے کہ جمہوریت کسی خیرات کا نام نہیں بلکہ مسلسل قربانی اور بیداری کا تقاضا کرتی ہے۔ آخر میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جمہوریت کا تحفظ صرف حکومت یا عدالتوں کے سہارے ممکن نہیں، بلکہ یہ عوام کی بیداری پر منحصر ہے۔ اگر عوام اپنے حقوق کو پہچان لیں، اگر وہ ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور اگر وہ اپنے ووٹ کو صحیح معنوں میں امانت سمجھ کر استعمال کریں، تو پھر کوئی طاقت جمہوریت کا گلا نہیں گھونٹ سکتی۔ بصورت دیگر، 15 ستمبر محض ایک رسمی دن رہ جائے گا اور جمہوریت کا چراغ بجھتا چلا جائے گا۔