عام آدمی پارٹی ‘ توسیعی عزائم

   

Ferty9 Clinic

دارالحکومت دہلی میںمثالی کارکردگی سے عوام کی مسلسل تائید حاصل کرنے والی اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی اب اپنے حلقہ اثر کو وسعت دینے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ ویسے تو عام آدمی پارٹی نے پہلے بھی پنجاب اور گوا میں اسمبلی انتخابات میںحصہ لیا تھا لیکن اسے ناکامی ہاتھ آئی تھی ۔ پارٹی کو پنجاب میں اقتدار ملنے کی امید تھی لیکن وہ محض چند نشستوں تک محدود ہوکر رہ گئی تھی ۔ اسی طرح گوا میں پارٹی کو بالکل معمولی تائید حاصل ہوئی تھی ۔ اب عام آدمی پارٹی پنجاب کے علاوہ اترکھنڈ ‘ اترپردیش ‘ گوا اور دوسری ریاستوں میں بھی انتخابات لڑنے اور قسمت آزمائی کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ ویسے تو ملک میں ہر سیاسی جماعت کو کسی بھی ریاست میں کسی بھی ادارہ کیلئے انتخابات لڑنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن جہاں تک عام آدمی پارٹی کا سوال ہے تو اسے پہلے ملک کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے پر پھیلانے کی کوشش میں بی جے پی کو فائدہ نہ پہونچایا جائے ۔ چند نشستیں اور چند ووٹ حاصل کرتے ہوئے اگر اپوزیشن جماعتوں کے مفادات کو نقصان پہونچایا جاتا ہے تو یہ راست نہ ہی صحیح بالواسطہ طور پر بی جے پی کو فائدہ ہوگا ۔ جن جن حلقوں میں یا ریاستوں میں اپوزیشن جماعتیں مستحکم موقف رکھتی ہیں یا پھر وہاں موجود بی جے پی حکومتوں کو ٹکر دے سکتی ہیں سبھی جماعتوں کو متحد ہوکر ایسا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ہر جماعت اپنے طور پر تنہا مقابلہ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے تو یہ صورتحال بی جے پی کیلئے فائدہ بخش ہوگی ۔ جو مخالف بی جے پی ووٹ ہونگے وہ کئی جماعتوں اور امیدواروں میں بٹ جائیں گے اور بی جے پی اپنے ووٹ بینک کو مستحکم کرتے ہوئے اور اپوزیشن کی صفوں میں اسی طرح اختلافات کو ہوا دیتے ہوئے اپنا سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ۔ پنجاب میں کانگریس کی حکومت ہے اور وہاں اگر عام آدمی پارٹی مقابلہ کرتی ہے تو اس کا راست بی جے پی سے ہی مقابلہ ہوگا کیونکہ عآپ وہاں پہلے بھی مقابلہ کرچکی ہے ۔ وہاں بی جے پی اور شرومنی اکالی دل سے زیادہ عوامی مقبولیت شائد عام آدمی پارٹی کو مل سکتی ہے ۔
اروند کجریوال کی قیادت والی عام آدمی پارٹی نے اترکھنڈ کیلئے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے ۔ پارٹی نے اجئے کوتھیال کو اپنا وزارت اعلی امیدوار بنا کر پیش کیا ہے ۔ حالانکہ اترکھنڈ کی سیاسی صورتحال میں ابھی کوئی شدت یا گرمی نہیں آئی ہے لیکن کجریوال سرگرم ہوچکے ہیں۔ ان کی پارٹی کو بھی یقینی طور پر سارے ملک میں انتخابی مقابلہ کرنے اور کہیں سے بھی کسی کو امیدوار بنانے کا حق حاصل ہے لیکن اروند کجریوال ہوں یا پھر دوسرے سیاسی قائدین ہوں سبھی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تنہا مقابلہ کرتے ہوئے کسی کیلئے بھی بی جے پی کو شکست دینا ممکن نہیں ہوگا ۔ موجودہ حالات میں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بی جے پی ملک کی سب سے بڑی اور سب سے طاقتور جماعت ہے ۔ اس کے علاوہ اس کے پاس موثر سیاسی ہتھکنڈے ہیں جن کی مدد سے وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی رہی ہے ۔ مرکزی حکومت کے اقتدار کا بیجا استعمال کرتے ہوئے سرکاری مشنری کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ مخالفین کو مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کا خوف دلا کر خاموش کیا جاتا ہے ۔ مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر ہتھکنڈہ اختیار کرتے ہوئے بی جے پی انتخابی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اپوزیشن کے قائدین کو دھمکانے میں ناکامی ہوجائے تو لالچ سے خریدا بھی جاتا ہے ۔ یہ صورتحال ایسی ہے جس کا سامنا اپوزیشن جماعتیں اسی وقت کرسکتی ہیں جب ان کی صفوں میں اتحاد ہو اور سبھی کا مشترکہ ایجنڈہ بی جے پی کو شکست دینا ہو۔
جہاںتک اروند کجریوال کی بات ہے تو وہ ہندوستانی سیاست میں اپنی الگ دنیا میں مگن ہیں۔ دہلی میں عوام کو سہولیات فراہم کرتے ہوئے ان کے دل جیت رہے ہیں۔ دہلی میں ان کا اقتدار مستحکم بھی ہے لیکن قومی سیاست کے تقاضوں کو بھی انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ دہلی کا فارمولا سارے ملک میں کارگر ثابت نہیں ہوسکتا ۔ انہیں مقامی حالات سے واقفیت حاصل کرتے ہوئے صورتحال کے مطابق حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ محض مقابلہ کی غرض سے مقابلہ کیا جائے تو خود عآپ کو تو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملے گی لیکن بی جے پی اس کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔