رسمِ اُلفت کو نبھائیں تو نبھائیں کیسے
ہر طرف آگ ہے دامن کو بچائیں کیسے
کرپشن کے خلاف جدوجہد سے وجود میں آنے والی عام آدمی پارٹی میں ان دنوں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے ۔ ویسے تو گذشتہ دو برسوں سے پارٹی کیلئے مشکلات ہی کا دور چل رہا ہے اور اس کے کئی قائدین پر کرپشن اور رشوت کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں جیل بھیجا گیا تھا ۔ وہ عدالتوں سے ضمانتیں حاصل کرتے ہوئے رہا بھی ہوگئے ہیں اور ان میں خود پارٹی کے قومی کنوینر و سابق چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال بھی شامل ہیں۔ سابق ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیا بھی جیل گئے ۔ ایک وزیر ستیندر جین کو بھی جیل کی کافی وقت تک ہوا کھانی پڑی تھی ۔ پارٹی کے رکن راجیہ سبھا سنجے سنگھ کو بھی کچھ وقت کیلئے حوالات جانا پڑا تھا ۔ اسی طرح کچھ قائدین نے پارٹی کی سرگرمیوں سے ناراضگی کی وجہ سے استعفی بھی پیش کردیا ہے ۔ ان قائدین کا پارٹی کنوینر اروند کجریوال کے طرز کارکردگی پر اعتراض تھا ۔ حالانکہ کچھ قائدین نے کھل کر کوئی تنقید نہیں کی ہے لیکن دبے دبے الفاظ میں ضرور ان تمام نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔ عام آدمی پارٹی جہاں دہلی میں اسمبلی انتخابات کیلئے عوام کی لگاتار تائید حاصل کرنے میںکامیاب ہوئی تھی وہیں اسے لوک سبھا انتخابات میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی ۔ پنجاب میں پارٹی نے حالانکہ اسمبلی الیکشن جیتا اور وہاں بھی پارٹی کا اقتدار ہے لیکن وہاں سے بھی لوک سبھا انتخابات میں اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیںمل پائی تھی ۔ ہریانہ میں پارٹی نے اسمبلی الیکشن لڑا ۔ اس نے خود کوئی کامیابی حاصل نہیں کی لیکن کانگریس کی شکست کی ذمہ دار ضرور بن گئی ۔ ابتداء میں ملک کی مختلف ریاستوں سے جس طرح عام آدمی پارٹی کو عوامی تائید ملنے کے اشارے مل رہے تھے حقیقت میں ویسا نہیں ہوا اور و قت گذرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کیلئے اس کی مرکزی قیادت اور دہلی کے اطراف ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور پارٹی میں جو صورتحال پیدا ہو رہی ہے اس کے نتیجہ میں پارٹی کے مستقبل کیلئے اندیشے پیدا ہونے لگے ہیں ۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ دہلی میں چند ماہ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیںاس طرح کی صورتحال پارٹی کے مفاد میں ہرگز نہیں ہوسکتی ۔
عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کجریوال کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ ضدی ہیں اور اپنے فیصلوں میں کوئی لچک نہیں رکھتے ۔ جہاںتک سیاست کا سوال ہے تو سیاست حالات کو سمجھنے کی اہلیت ر کھنے والوں کیلئے زیادہ کامیاب ہوسکتی ہے ۔ کسی بھی معاملے میںاپنے فیصلے دوسروں پر مسلط کرنے میں کوئی بڑی کامیابی ملنی ممکن نہیں ہوسکتی ۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عام آدمی پارٹی میں اروند کجریوال کے بعد کوئی زیادہ مقبول عام لیڈر نہیںہے ۔ منیش سیسوڈیا کچھ حد تک عوامی چہرہ بنے تھے تاہم وہ بھی صرف دہلی تک محدود رہے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کو جو مسلسل کامیابی ملتی رہی ہے وہ کسی شخصیت کی وجہ سے نہیںتھی بلکہ جو اسکیمات ابتداء میںاروند کجریوال کی حکومت نے شروع کئے تھے ان کے نتیجہ میں عوام نے اسے اپنی تائید سے نوازا تھا ۔ سیاست مقبولیت کا بھی کھیل ہے ۔ مقبول عام قائدین رائے دہندوں پر اور عوام پر اثرا نداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت میںکچھ قائدین کی تشہیر وغیرہ پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔ بھاری رقومات خرچ کی جاتی ہیں اور ان کے تعلق سے عوام میں ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ عام آدمی پارٹی میں یہ سب کچھ دیکھنے میں نہیں آیا تھا ۔ اروند کجریوال واحد چہرہ ہیں جو پارٹی کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ تاہم انہیں بھی جس طرح کے تنازعات میں گھیرا گیا ہے اس کے بعد پارٹی کی عوامی مقبولیت برقرار رہنے پر اندیشے ضرور پیدا ہوگئے ہیں ۔
جہاں تک اروند کجریوال کا سوال ہے تو انہوں نے کچھ فیصلے ایسے بھی کئے ہیں جو ان کی ضد کو ظاہر کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں کئی مواقع پر بی جے پی کو ہی فائدہ ہوا تھا ۔ تازہ ترین مثال ہریانہ کی ہے جہاںکجریوال نے کانگریس سے اتحاد نہیں کیا اور وہاں بی جے پی اپنے منصوبے میں کامیاب ہوگئی اور تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرلیا ۔ اسی طرح ان پر راست یا بالواسطہ طور پر بی جے پی کی مدد کا الزام عائد ہوتا رہا ہے ۔ اس صورتحال میں پارٹی کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ از سر نو حکمت عملی تیار کرنی چاہئے اور تنظیمی ڈھانچہ کو مضبوط اور مستحکم کرنے پر توجہ دینا چاہئے تاکہ مستقبل کے اندیشوں کو دور کیا جاسکے ۔