بہت ممکن ہے اب آئین گلشن ہی بدل جائیں
کہ خود پھولوں میں پیدا برہمی سی ہوتی جاتی ہے
دہلی میں برسر اقتدار اور لگاتار تیسری معیاد کیلئے عوامی تائید حاصل کرنے کوشاں عام آدمی پارٹی کو اسمبلی انتخابات کیلئے رائے دہی کے پانچ دن قبل جھٹکا دینے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے سات ارکان اسمبلی نے پارٹی سے استعفی دے دیا ہے ۔یہ وہ ارکان اسمبلی ہیںجنہیں پارٹی نے اس بار اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کیلئے ٹکٹ نہیں دیا تھا اور ایک ایسے رکن اسمبلی ہیں جنہیںٹکٹ دیا گیا تھا لیکن پنجاب میں ایک عدالت کی جانب سے انہیں ایک مقدمہ میں سزا سنائے جانے کے بعد ان کا ٹکٹ تبدیل کرکے دوسرے شخص کو امیدوار بنا دیا گیا ہے ۔ ویسے بھی ملک میں ہو یا ملک کی مختلف ریاستوں میں ہوں انتخابات کے دوران یا انتخابی عمل سے قبل ہی ارکان اسمبلی اور کونسل یا ارکان پارلیمنٹ کے استعفوں اور دوسری پارٹیوں میں شمولیت کی ایک روایت چلی آ رہی ہے ۔ ملک کی تقریبا ہر ریاست میں ایسا ہوتا آیا ہے اور یہی سلسلہ دہلی میں بھی جاری رہا ۔ کہا جا رہا ہے کہ ان ارکان اسمبلی کو بی جے پی نے شہہ دیتے ہوئے استعفی دینے کیلئے تیار کرلیا ہے ۔ ویسے بھی ان کی معیاد بالکل ختم ہوگئی ہے ۔ جیسے ہی رائے دہی ہوگی اور نئی اسمبلی تشکیل پائے گی یہ تمام سابق ارکان اسمبلی قرار پا جائیں گے اور ایسے میں آج کی تاریخ میں ان کے استعفی دینے سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ۔ تاہم اس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ یہ ارکان اسمبلی بھی کسی دیانتداری یا ایک نظریہ کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کے ساتھ نہیں تھے بلکہ وہ اپنے عہدہ اور اقتدار کی خاطر ہی عام آدمی پارٹی کا حصہ بنے تھے اور جیسے ہی انہیں اسمبلی کی رکنیت کیلئے مقابلہ کا ٹکٹ نہیں ملا انہوں نے عین موقع پر پارٹی کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی لگاتار تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے اور بی جے پی ریاست میں پچیس سال بعد اقتدار حاصل کرنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کر رہی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے عام آدمی پارٹی کو اقتدار سے بیدخل کرنے کیلئے ہر حربہ اور ہتھکنڈہ اختیار کیا جا رہا ہے اور ایسے میں سات ارکان اسمبلی کو مستعفی ہونے کیلئے راضی کرنا بھی اسی کا حصہ نظر آتا ہے ۔
بی جے پی یہ امید کر رہی ہے کہ اس بار اسے ریاست میںاقتدار حاصل ہوجائے گا اور وہ عام آدمی پارٹی کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گی ۔ پارٹی کا دعوی ہے کہ ریاست میں عام آدمی پارٹی کی حکومت کے خلاف لہر ہے ۔ یہی دعوے مغربی بنگال میں کئے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ ممتابنرجی کے دس سال کے اقتدار سے بنگال کے عوام بیزار ہوگئے ہیں اور وہ تبدیلی چاہتے ہیں ۔ تاہم ممتابنرجی نے تیسری معیاد کیلئے بھی بہت شاندار اور تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئے بی جے پی کو شکست سے دو چار کردیا تھا ۔ لوک سبھا انتخابات میں بھی بی جے پی کو یہاں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اس کی نشستوں کی تعداد میں کمی آئی تھی ۔ بی جے پی دہلی میں بھی یہی تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ دس سال کے اقتدار کے بعد عام آدمی پارٹی سے دہلی کے عوام بیزار ہیں۔ اسی تاثر کو تقویت دیتے ہوئے سات ارکان اسمبلی کو استعفی دینے کیلئے حوصلہ دیا گیا اور انہوں نے اسی تاثر کو قبول کرتے ہوئے استعفی پیش کردیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی اور اروند کجریوال میں اعتماد سے محروم ہوگئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچانک ہی ایک صبح اٹھ کر وہ اعتماد سے محروم کیسے ہوگئے ہیں ؟ ۔ یہ اعتماد سے محرومی نہیں بلکہ ٹکٹ سے محرومی کا نتیجہ ہے کہ وہ ایک نظریہ کو ترک کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں اور انہوں نے استعفی دینے کا اعلان کردیا ہے ۔ یہ ان کی موقع پرستی اور مفاد پرستی کی مثال ہے ۔
یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصہ میں عام آدمی پارٹی کو کئی طرح سے پریشان کرنے کیلئے کوششیں کی گئی ہیں۔ اس کے قائدین اور ذمہ داروں کو جیل بھیجا گیا ۔ اروند کجریوال کو چیف منسٹر کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا ۔ ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیا بھی ایک سال سے زیادہ کا عرصہ جیل میں گذار کر آئے ہیں۔ ایسے میں عوام میں ایک تاثر عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ارکان اسمبلی کا استعفی رائے دہی سے پانچ دن قبل ایک ہتھکنڈہ ہوسکتا ہے ۔ اس کے ذریعہ عام آدمی پارٹی پر نفسیاتی دباؤ میںاضافہ ہوسکتا ہے ۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں دہلی کے رائے دہندے کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔ وہ بی جے پی کے حربے کا شکار ہوتے ہیں یا پھر سمجھ بوجھ کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں یہ نتائج کے دن واضح ہوگا ۔