عام آدمی پارٹی کی انتخابی تیاریاں

   

کیوں دل اندیشہ طوفاں سے میرا ڈرتا ہے
تو ہی دریا تو ہی کشتی تو ہی ساحل ہوجا
دہلی میں دو معیادوں سے برسر اقتدار عام آدمی پارٹی نے آئندہ سال کے اوائل میں ہونے والے مجوزہ اسمبلی انتخابات کیلئے اپنی تیاریاںتیز کردی ہیں۔ پارٹی نے اب اپنے تمام امیدواروں کی فہرست بھی جاری کردی ہے ۔ کچھ امیدواروں کے حلقے تبدیل کئے گئے ہیں۔ کچھ امیدواروں کو تبدیل کیا گیا ہے اور کہیں سے نئے چہروں کو میدان میںاتارا گیا ہے ۔ نئے چہرے در اصل مخالف حکومت لہر سے بچنے کی کوشش ہے جبکہ کچھ امیدواروں کو حلقے تبدیل کرتے ہوئے نئے حلقوں میں بھیجا گیا ہے ۔ بی جے پی کی تنقید اور اس کے طنز کا جواب دیتے ہوئے عام آدمی پارٹی نے سابقہ چیف منسٹر اروند کجریوال کی نئی دہلی نشست اور چیف منسٹر آتشی کی کالکا جی نشست کو برقرار رکھا ہے ۔ پارٹی کنوینر اروند کجریوال وزارت اعلی کی ذمہ داری سے دور ہونے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ پوری طرح سے پارٹی کی آئندہ کامیابی کو یقینی بنانے کی حکمت عملی میں مصروف ہوچکے ہیں۔ وہ پارٹی امیدواروں کے تعلق سے ٹھوک بجا کر فیصلہ کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ وہ عوام کے موڈ کو سمجھنے کیلئے بھی سروے کرواتے ہیں اور عوام کی رائے کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے کیلئے بھی جانے جاتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی لگاتار دو معیادوں کیلئے دہلی میں کسی رکاوٹ کے بغیر حکمران رہی ہے ۔ دونوں ہی مرتبہ اپوزیشن کا وجود ہی نہیں رہ گیا تھا ۔ تیسری معیاد کیلئے بھی اروند کجریوال تیاریاںشروع کرچکے ہیں اور وہ بی جے پی یا کانگریس کو کوئی موقع دینا نہیںچاہتے ۔ ان کی تیاریاں حالانکہ اپنے طور پر اچھے ڈھنگ سے چل رہی ہیں اور چونکہ انتخابات کے اعلان کیلئے ابھی وقت ہے ایسے میں وہ بنیادی امور پر توجہ دینے میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ دہلی میں اب تک چلائی جا رہی اسکیمات کے اثر اور ان پر عوام کے رد عمل پر غور کر رہے ہیں تو ساتھ ہی نئی اسکیمات پر بھی تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے ۔ انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد پارٹی کے منشور میں کچھ نئے اعلانات کی امید بھی کی جا رہی ہے اور کہا گیا ہے کہ کجریوال اس کی بھی تیاری کر رہے ہیں۔
اپنے طور پر تیاریاں اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن عوام کے موڈ کو سمجھنے کیلئے اس بار کجریوال کو باریک بینی سے کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ سماج کے اہم طبقات کو نظر انداز کرتے ہوئے محض مفت کی اسکیمات کے ذریعہ ان کے ووٹ حاصل کرنے میں ہر بار کامیابی ملنی آسان نہیں دکھائی دیتی ۔ کجریوال کے تعلق سے یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ وہ دوسری ریاستوں میں انتخابات میں مقابلہ کرتے ہوئے بی جے پی کو فائدہ پہونچاتے ہیں اور کانگریس کی شکستوں میں ان کا بھی رول ہوا کرتا ہے ۔ ہریانہ میں اس کی مثال موجود ہے جہاں کجریوال نے کانگریس سے اتحاد کی بجائے تنہا مقابلہ کیا اور بی جے پی ہاری ہوئی بازی جیتنے میں کامیاب رہی ۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کجریوال صرف مفت بجلی ‘ مفت پانی یا اسکولوں کی تعمیر کی تشہیر ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ مسلم سماج کے مسائل پر سنجیدہ نہیں ہوتے ۔دہلی کے شاہین باغ میں طویل عرصہ تک چلے مسلم خواتین کے احتجاج پر انہوں نے لگاتار خاموشی اختیار کی تھی ۔ دوسرے مسلم اہمیت کے مسائل پر بھی وہ لب کشائی سے گریز کرتے ہیں۔ وہ اپنی خاموشی کے ذریعہ ایک طرح سے مخالف مسلم اقدامات کی بالواسطہ تائید کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے مسائل پر وہ کھل کر کوئی موقف اختیار نہیں کرتے اور ان کی پارٹی کے مسلم قائدین یہاں تک کہ کارپوریٹرس اور ارکان اسمبلی کو بھی یہی شکایت لاحق ہوگئی ہے اور اس کا اب کھل کرا ظہار بھی کیا جا رہا ہے ۔
کجریوال کو زمینی حقائق کو تسلیم کرنا چاہئے ۔ انہیں صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سماج کے تمام طبقات کا ساتھ لینے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ دہلی کی صورتحال اور بی جے پی کے عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں انتخابی مفاہمت سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ دو مرتبہ کی جیت پر ضرورت سے زیادہ پراعتماد نہیں ہونا چاہئے ۔ مسلمانوں میں جو ان کا بھروسہ مجروح ہوا ہے اسے بحال کرنے کیلئے کوشش کرنی چاہئے ۔ مسلمانوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان کے مسائل پر کھل کرا ظہار خیال کرنا چاہئے ۔ اپنی ہی سوچ کے مطابق تیاریاں اور پالیسیاں ہر بار کامیابی کی ضمانت ہونی ضروری نہیں ہیں۔