عام آدمی پارٹی کی شکست

   

اتنے قریب آکے بھی نہ جانے کس لئے
کچھ اجنبی سے ’عآپ‘ ہیں کچھ اجنبی سے ہم
دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج سامنے آگئے ہیں۔ جس طرح کہا جا رہا تھا بی جے پی نے دہلی میں شاندار واپسی کی ہے ۔ بی جے پی کی جیت عام آدمی پارٹی کی کراری شکست کی صورت میںسامنے آئی ہے ۔ جس طرح سے عام آدمی پارٹی ساری انتخابی مہم کے دوران دفاعی موقف میں نظر آ رہی تھی اس سے ظاہر ہونے لگا تھا کہ پارٹی کو اس بار خود اپنی کامیابی کا کامل یقین نہیں رہ گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کیلئے راہ ہموار ہونے لگی تھی اور عام آدمی پارٹی کی صفوںمیں بھی غیر یقینی کیفیت پیدا ہوگئی تھی ۔ گذشتہ تین بار کے اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کے تیور انتہائی جارحانہ رہے تھے اور اس کے قائدین کا رویہ پراعتماد دکھائی دے رہا تھا ۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال سابقہ انتخابات میں اپنی کامیابی کے تعلق سے قبل از وقت دعوے کرتے رہے تھے ۔ انہوں نے ہمیشہ مخالف جماعتوںکے بڑے قائدین کی شکست کا اعلان کیا تھا اور کئی مواقع پر ان کے دعوے درست بھی ثابت ہوئے تھے ۔ تاہم اس بار خود کجریوال کے تیور کمزور دکھائی دے رہے تھے اور پارٹی کیڈر میں بھی بے چینی کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی ۔ اس کا لازمی نتیجہ پارٹی کی اسمبلی انتخابات میںشکست کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔ ویسے تو انتخابات میں کسی کی جیت اور کسی کی ہار جمہوری عمل کا حصہ ہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کجریوال اپنے خلاف مقدمات کے بعد سے کمزور پڑ گئے تھے اور انہوں نے بی جے پی کیلئے راستہ ہموار کردیا تھا ۔ کجریوال نے شراب اسکام میں جیل سے رہائی کے بعد ہریانہ اسمبلی انتخابات میں جو تیور دکھائے تھے وہ دہلی میں دکھائی نہیں دئے ۔ دہلی اسمبلی انتخابات سے قبل ہی کجریوال نے چیف منسٹر کے عہدے سے استعفی پیش کردیا تھا ۔ ڈپٹی چیف منسٹر کی حیثیت سے منیش سیسوڈیا کو بحال نہیں کیا گیا تھا اور یہی دونوں دہلی میں عام آدمی پارٹی کے اصل چہرے تھے ۔ سیسوڈیا کی بحالی سے گریز اور اروند کجریوال کے استعفی سے ہی بی جے پی کے حوصلے بلند ہوگئے تھے اور عوام میں یہ تاثر عام ہونے لگا تھا کہ کجریوال نے ابھی سے بی جے پی کیلئے راہ ہموار کرنی شروع کردی ہے اور بالواسطہ طور پر انہوں نے اپنی پارٹی کی شکست کا اعتراف بھی کرلیا ہے ۔ نتائج اسی بات کو ثابت کرتے ہیں۔
کرپشن کے خلاف تحریک سے جنم لینے والی عام آدمی پارٹی اپنی حکومت کے ابتدائی ایام میں عوام کیلئے ایک کشش رکھنے والی جماعت قرار پانے لگی تھی ۔ عوام یہ مان رہے تھے کہ یہ پارٹی سب سے مختلف ہے اور اس نے کرپشن کو ختم کرنے کی کوشش ضرور کی ہے ۔ عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرتے ہوئے بھی اروند کجریوال نے عوامی تائید و حمایت حاصل کی تھی ۔ عوام میںیہ رائے پیدا کردی گئی تھی کہ انہیںمفت کی سہولیات فراہم کرنا ہی حکومت کی اصل کارکردگی ہے ۔ انہوں نے دوسرے اہم اور بنیادی مسائل پر زیادہ کچھ توجہ نہیں دی ۔ اروند کجریوال کی دوسری مکمل معیاد کے دوران جب کرپشن کے الزامات عائد ہونے لگے تو عوام کو بھی ایک طرح سے جھٹکا لگا تھا ۔ یہ درست ہے کہ ابھی عام آدمی پارٹی کے کسی بھی لیڈر پر کرپشن کے الزامات ثابت نہیںہوئے ہیںلیکن انہیں کافی وقت تک ان مقدمات میں جیل جانا پڑا ہے اور بی جے پی کی جو تشہیری مشنری ہے وہ انتہائی مستحکم ہے اس مشنری نے دہلی میں پیدا ہونے والی صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ عوام میں تشہیر کی گئی ۔ عام آدمی پارٹی کو دفاعی موقف اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا اور لگاتار الزامات اور مقدمات کے نتیجہ میںعام آدمی پارٹی عوامی موڈ کو سمجھنے اور ناراضگی کو دور کرنے کی حکمت عملی بنانے میں کامیاب نہیںہو پائی ہے ۔پارٹی کے بڑے چہروں کی شکست اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ عوام کا ووٹ کسی کو بھی تخت پر اور کسی کو بھی تختہ پر لا سکتا ہے ۔ دہلی کے نتائج اس بات کا واضح ثبوت دکھائی دیتے ہیں۔
عوامی موڈ اور نبض کے علاوہ ایک اور اہم اور بنیادی پہلو یہ بھی ہے کہ اروند کجریوال میں سیاسی انا بہت زیادہ ہوگئی تھی ۔ وہ ہٹ دھرمی والے رویہ پر آگئے تھے ۔ انہیں یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ ان کی کامیابیوں کا سلسلہ کم از کم دہلی میں نہیں رکنے والا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہریانہ یا دوسری ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں دوسری جماعتوں سے اتحاد کرنے کی بجائے تنہا مقابلہ کیا اور بی جے پی کی کامیابی کی راہ ہموار کردی ۔ جب بات دہلی کی آئی تو انہیں بھی بی جے پی کے مقابلہ میں شکست ہوئی ۔ وہ محض دس بارہ سال کے سیاسی تجربہ میں کسی کو خاطر میں لانے تیار نہیں تھے ۔ کجریوال اگر واقعی بی جے پی سے مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے میں سنجیدہ ہیںتو انہیں اپنا اور اپنے سیاسی فیصلوں کا محاسبہ کرنا چاہئے۔
ہندوستانیوں سے امریکہ کا غلط برتاؤ
ڈونالڈ ٹرمپ کے امریکی صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد دنیا بھر میں ایک طرح سے اتھل پتھل شروع کردی گئی ہے ۔ ٹرمپ ایسے فیصلے کر رہے ہیں جن کے ساری دنیا پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک فیصلہ غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کا تھا ۔ ان میں دوسرے ملکوں کی طرح ہندوستانی بھی شامل ہیں۔ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو وطن واپس بھیجنا امریکہ کا اختیار ہے لیکن ہندوستانیوں اور کچھ دوسرے ممالک کے شہریوں کو وطن واپس بھیجتے ہوئے جس طرح کا رویہ اختیار کیا گیا ہے وہ نازیبا ہے ۔ تارکین وطن کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ انہیں فاقہ کشی کی صورتحال کا شکار کردیا گیا ۔ ان کے ساتھ قیدیوں جیسا سلوک کیا گیا ۔ یہ رویہ اس لئے بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ ہندوستان اور امریکہ کے مابین بہتر روابط اور تعلقات ہیں۔ ہندوستان کو امریکہ سے اس معاملے میں سفارتی سطح پر پرزور نمائندگی کرنی چاہئے اور ٹرمپ انتظامیہ پرا س بات کیلئے دباؤ ڈالا جانا چاہئے کہ وہ غیر قانونی ہندوستانیوںکو واپس بھیجے تاہم ان کے ساتھ غیر انسانی رویہ اختیار نہ کیا جائے ۔