عام بجٹ ‘ مرکز کی ذمہ داری

   

تم نے مسرتوں کے خزانے لُٹادیئے
لیکن علاجِ تنگیٔ داماں نہ کرسکے
عام بجٹ ‘ مرکز کی ذمہ داری
پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کا آغاز ہوچکا ہے اور کل یکم فبروری کو نریندر مودی حکومت اپنی دوسری معیاد کا پہلا عام بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کریگی ۔ یہ بجٹ ایسے وقت میںپیش کیا جا رہا ہے جبکہ ملک کی معیشت کی حالت انتہائی ابتر قرار دی جا رہی ہے ۔ معیشت انحطاط کا شکار ہوچکی ہے ۔ سارا ملک اس کے اثر میں ہے اور عوام کو بے انتہاء مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ملک کی صنعتیں بری طرح متاثر ہوکر رہ گئی ہیں۔ صنعتی پیداوار کم ہوگئی ہے ۔ اگر پیداوار ہو بھی رہی ہے تو مال بازار میں فروخت نہیں ہو پا رہا ہے ۔ کئی سروے میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ عوام کی قوت خرید متاثر ہوکر رہ گئی ہے ۔ عوام کی جیبوں میں پیسہ نہیں بچ پا رہا ہے ۔ وہ اپنی زندگی کی لازمی ضروریات ہی بمشکل تمام پوری کر پا رہے ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس نے عوام کو ادھ موا کردیا ہے ۔ معاشی سست روی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے ۔ آٹو موبائیل کا شعبہ تو بے تحاشہ متاثر ہوا ہے ۔ جہاں پیداوار متاثر ہوئی ہے وہیں اس شعبہ میں ملازمتیں کم ہو کر رہ گئی ہیں۔ کئی شوروم بند کردئے گئے ہیں۔ کئی کارخانوں میں گاڑیوں کی تیاری رک گئی ہے ۔ کچھ پلانٹس بند کردئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف شعبہ جات میں ترقی کی رفتار انتہائی سست ہو کر رہ گئی ہے ۔ مینوفیکچرنگ کا شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیںرہ پایا ہے ۔ سرکاری سطح پر بھی صورتحال ٹھیک نہیںہے ۔ بی ایس این ایل سے ہزاروں ملازمین کی وی آر ایس کے ذریعہ چھٹی کردی گئی ہے ۔ اب ائر انڈیا کو فروخت کرنے کی بات ہونے لگی ہے اور اس کی تیاریاں بھی شروع کردی گئی ہیں۔ عوامی شعبہ کے بینکوں کی تعداد کو بھی گھٹادیا گیا ہے ۔ کئی بینکوں کو دوسرے بینکس میں ضم کردیا گیا ہے ۔اس سے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں کہ بینکنگ شعبہ میں بھی ملازمتوں کی تعداد گھٹا دی جائیگی ۔ اسی وجہ سے بینک ملازمین ہڑتال کر رہے ہیں۔ یہ ساری صورتحال حکومت کی جانب سے ہندوستان کی معیشت کو 3 ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کے دعووں کے درمیان پیدا ہوئی ہے اورحکومت ایسا لگتا ہے کہ ان انتہائی اہمیت کے حامل امور پر کوئی توجہ دینے کو تیار ہی نہیں ہے ۔
جہاں معیشت متاثر ہوئی ہے وہیں مہنگائی نے بھی ملک کے عوام پر الگ سے بوجھ عائد کردیا ہے ۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں خاموشی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ عوام کی جیبوں پر غیر محسوس طریقے سے ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے ۔ تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ سبسڈی اور غیر سبسڈی والی گیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ پیاز کی قیمت نے آسمان چھولیا تھا ۔ ادویات تک مہینگی ہوگئی ہیں۔ دودھ بھی عام آدمی کی پہونچ سے باہر ہوتا جا رہا ہے ۔ ان سب کے باوجود مرکزی حکومت اس ساری صورتحال کا اعتراف تک کرنے کو تیار نہیں ہے اور عوام کو اب بھی شہد میں گھول کر زہر دینے جیسی باتیں ہی کی جا رہی ہیں۔ عوام کا دھیان گودی میڈیا کی مدد اور تعاون کے ذریعہ ان سلگتے ہوئے اور انتہائی اہمیت کے حامل مسائل سے بھٹکانے کیلئے نزاعی اور اختلافی مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ رات دن ٹی وی چینلوں کے ذریعہ سماج میں نفرت کا زہر گھولنے کی مہم پورے عروج پر ہے ۔ مفاد پرست ٹی وی اینکرس حکومت سے سوال کرنے کی بجائے سماج میں نفرت گھولنے کی مہم میں جٹے ہوئے ہیں۔ ہندو ۔مسلم کا راگ الاپا جا رہا ہے ۔ معمولی واقعات کو توڑ مروڑ کر سنسنی پیدا کرنے کی روش اختیار کرلی گئی ہے اور ان ساری کاوشوں کا مقصد صرف حکومت کی چاپلوسی کرنا اور عوام کی توجہ راست ان سے تعلق رکھنے والے مسائل سے ہٹاتے ہوئے انہیں نزاعی اور اختلافی مسائل میں الجھانا ہے ۔
اب جبکہ حکومت کی جانب سے اپنی دوسری معیاد کا پہلا بجٹ پیش کیا جا رہا ہے تو یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بجٹ کے ذریعہ عوام کو راحت دینے کے اقدامات کرے ۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ صنعتی شعبہ کو ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن کرے ۔ جو صنعتیں بند ہوگئی ہیں ان کا احیاء عمل میں لانے کوشش کی جائے ۔ ملک کی معیشت میں نئی جان ڈالنے کیلئے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرے ۔ اپنی من مانی کرنے کی بجائے ماہرین معاشیات کے مشوروں کو قبول کیا جائے ۔ ان کی تجاویز کو یکسر مسترد کرنے کی بجائے ان پر غور و خوض کیا جائے ۔ جو ملک اور ملک کی معیشت کے حق میں بہتر مشورے ہوں انہیں فراخدلی سے قبول کیا جائے ۔ 3 ٹریلین ڈالرس کی معیشت کے نعرے کو حقیقی شکل دینے کیلئے کوشش کی جائے اور اسے بھی صرف ایک انتخابی جملہ بنانے سے گریز کیا جائے ۔