مستانہ وار کوئی بہاروں کے ساتھ تھا
بہکے قدم جو میرے تو لغزش سنبھل گئی
عالم اسلام میں اس وقت عالم عرب کی صورتحال موافق مغرب پالیسیوں کے تابع نظر آرہی ہے ۔ سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ عرب دنیا کے تعلقات کو بہتر مستقبل کی جانب اشارہ دیا ہے ۔ گذشتہ ہفتہ مصر ، اردن اور عراق کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں یمن ، لیبیا ، فلسطین اور دیگر کئی اہم مسائل پر بات چیت کی گئی لیکن لبنان کے بحران کی طرف توجہ نہیں دی گئی ۔ لبنان بحران کو نظر انداز کر کے کہیں بہت بڑی غلطی تو نہیں کی جارہی ہے ۔ کیوں کہ عرب ممالک میں عرب رول کا فیصلہ کن قدم نہ ہونا کئی مسائل کو ہوا دے سکتا ہے ۔ لبنان ایک عرب ملک ہے اس کی عرب شناخت کو دوبارہ قائم کرنا اور مقتدر اعلیٰ کو بحال کرنا ضروری ہے ۔ لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ جب سے اسرائیل نے عرب ممالک کو اپنا مطیع بنانا شروع کردیا ہے ۔ عرب مسائل سے خود عرب ملکوں نے خود کو دور رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اس لیے عرب دنیا دھیرے دھیرے دیگر ملکوں جیسے شام ، روس ، ترکی اور لیبیا کے لیے غیر متعلقہ ہوتی جارہی ہے ۔ ایسے میں عرب ورلڈ کا ایک ہی مسئلہ ایران کا نیوکلیر مسئلہ ہے جس کو امریکہ کے نئے نظم و نسق نے نظر انداز کردیا ہے ۔ عرب لیگ ایک ایسا گروپ ہے جو عرب ملکوں خاص کر فلسطین جیسے مسائل پر متحد ہو کر اظہار یگانگت کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن جب مدد کرنے یا بڑا قدم اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ عرب لیگ عدم کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ جہاں تک عراق کا مسئلہ ہے سعودی عرب نے 2020 میں عراق کے زرعی شعبہ کے لیے 3 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا تھا ۔ حال ہی میں وزیراعظم عراق مصطفی الکافی نے سعودی عرب کے سرکاری دورے پر سعودی حکومت کے ذمہ داروں سے براہ راست بات چیت کی ہے ۔ سعودی عرب اور عراق نے مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدے بھی کئے ہیں ۔ عراق بھی دیگر ملکوں کی طرح ایک ملک ہے اس کی اصل شناخت عرب ہے ۔ جو تبدیل نہیں ہوسکتی جیسا کہ خالد بن سلمان سعودی وزیر دفاع نے کہا کہ عراق کی عرب شناخت سعودی عرب کے لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے جس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح لبنان کے تعلق سے عرب ممالک کی خاموشی افسوسناک ہے ۔ سعودی عرب نے جس طرح عراق کو اپنا بھائی سمجھا ہے ۔ لبنان کے معاملہ میں اسے فراخدلانہ موقف رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اردن میں شاہی بغاوت کے بعد سابق ولی عہد شہزادہ حمزہ بن حسین کو نظر بند کردیا گیا ۔ اردن کی سلامتی و استحکام کو نقصان پہونچانے والی سرگرمیوں کے بعد اردن کے شاہ دوم عبداللہ نے حمزہ کو گھر پر نظر بند کرنے کے علاوہ کئی عہدیداروں کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے ۔ امریکہ اور سعودی عرب نے اس بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے اردن کے شاہ دوم کی حمایت کی ہے ۔ شہزادہ حمزہ نے اپنے سوتیلے بھائی شاہ عبداللہ دوم کا تختہ الٹنے کی سازش کی تھی ۔ اردن کے شاہ کے سر پر سعودی عرب اور امریکہ کے علاوہ دیگر عرب ممالک کا ہاتھ ہے تو اس بغاوت کو کچلنے میں آسانی ہوئی ۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر سعودی عرب اپنے ہمسایہ عرب ملکوں کو مضبوط و مستحکم بنانے میں آگے آئے تو عالم عرب کو ایک بڑی طاقت دی جاسکتی ہے ۔ تمام عرب ممالک ایک دوسرے سے متحد ہو کر مل کر کام کریں تو عالم عرب اور عالم اسلام کے کئی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی اور دنیا کی دیگر بڑی طاقتیں عالم عرب پر انگلیاں اٹھانے سے گریز کریں گے ۔ عالم عرب میں معیشت ، سفارت کاری اور فوجی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے میں بھی مدد ملے گی ۔ عرب ورلڈ کے مسائل کو اکھٹا کر کے کام کیا جائے تو عالم عرب ساری دنیا کے سامنے طاقتور خطہ بن جائے گا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ عالم عرب اپنی سرحدوں کی مقتدر اعلیٰ پر سے کنٹرول کھوتا جارہا ہے ۔ 2011 سے قبل تک ساری دنیا یہ عرب بلاک کے بارے میں ایک عام رائے یہ تھا کہ یہ عرب بلاک عرب مفادات کے لیے متحد ہے ۔ اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی فورس میں عرب بلاک ، عربوں کے مفادات کے لیے آواز اٹھانے کے لیے مقبول تھا اب یہ اپنا اثر کھو چکا ہے ۔۔
