عزت کی زندگی کیلئے جدوجہد کرنا پڑے گا

   

حضرت مولانا منت اللہ رحمانی
اسلام میں عاشورہ محرم کو کافی اہم قرار دیا گیا ہے اور احادیث میں کثرت سے ماہ محرم کے ابتدائی دس دنوں کی فضیلتیں بیان فرمائی گئی ہیں ۔ ان ایام میں جو عبادتیں کی جاتی ہیں ان کے اجر و ثواب تقریباً اتنے ہوتے ہیں جس قدر ماہ رمضان المبارک میں کی جانے والی نیکیوں پر ملتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص پورے عشرہ اولیٰ کے روزے رکھتا ہے تو سبحان اللہ ورنہ نویں اور دسویں تاریخوں میں روزے رکھنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ یہ روزے مستحب ہیں ، لیکن چونکہ ان روزوں کی اہمیت اور اجر و ثواب کو جناب رسول اللہ ﷺ نے بار بار بیان فرمایا ہے ۔ اس لئے ان دو دنوں میں روزے رکھیں اور عاشورہ یعنی دسویں تاریخ کو اپنے اہل و عیال کو حسب مقدور اچھے سے اچھا کھلائیں پلائیں ۔ جناب نبی کریمﷺ نے اس کافائدہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال پر دسترخوان وسیع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سال بھر وسعت دیں گے ۔
یوم عاشورہ ہی سے متعلق تاریخ اسلام کا ایک اہم واقعہ بھی ہے اور وہ حضرت سیدنا حسین ؓ کی شہادت اور معرکہ کربلا کا ہے ۔ ہمیں اس واقعہ کو بھی ہمیشہ نظر میں رکھنا چاہئیے اور اس کی روشنی میں اپنے لئے لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئیے ۔ حضرت حسین ؓ نے اپنے آپ کو اور اپنے ساتھ اپنے احباب و اعزا عورتوں اور بچوں کو خدا کی راہ میں قربان کرکے درحقیقت ہمیں اس کی تعلیم دی ہے کہ ہم زندہ رہیں تو خدا کیلئے اور جب ہم جان دیں تو اسی کی راہ میں ۔ سب سے زیادہ قیمتی اور قابل رشک جان وہی ہے جو خدا کی راہ میں کام آئی ہو اور اسے صرف اس ’’جرم‘‘ میں ختم کیا گیا ہو کہ وہ خدا کی نام لیوا تھی۔ ہماری زندگی کا صرف ایک نصب العین ہو اور وہ ہو ’’ اعلاء کلمۃ الحق ‘‘ ایک مؤمن کے دل میں صرف خوف خدا ہونا چاہئیے اور اس کے قلب میں کسی اور کا بھی خوف ہے تو پھر صاف لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کا دل نورِ ایمان سے روشن نہیں ہے ۔ اگر عملی طور پر دنیا میں یہ ناممکن ہے کہ ایک گلاس میں دو طرح کے پانی بیک وقت الگ الگ رہ سکیں تو یہ بھی ناممکن ہے کہ ایک دل میں خدا کے ساتھ غیراللہ کا بھی خوف ہو ۔ اس کا ثبوت ہمیں واقعہ کربلا سے ملتا ہے ۔محض ستر بہتر کا مقابلہ یزید کی فوجِ بیکراں سے ہورہا تھا ۔ حضرت حسین ؓ آخر اتنے ناسمجھ تو نہیں تھے کہ اس کے انجام سے بے خبر ہوں ۔ لیکن انہوں نے جان دینا آسان سمجھا مگر یہ گوارہ نہیں کیا کہ اسلام کی شکل و صورت کو مسخ ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور خاموش رہ جائیں ۔ چنانچہ باطل سے مقابلہ کیا اور بقول حضرت خواجہ اجمیری رحمتہ اللہ علیہ
سرداد نہ داد در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ
اس لئے اگر آج بھی ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں صحیح اور باعزت زندگی گذاریں تو ہمیں حضرت حسین ؓ کا کردار اپنانا اور اختیار کرنا ہوگا ۔ واقعہ کربلا میں ہمارے لئے بہت سی نصیحتیں ہیں ۔ اس کا ایک ایک لمحہ ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم ظلم کسی پر نہ کریں ۔ کسی کو ہرگز نہ ستائیں اور کسی پر عرصہ حیات تنگ نہ کریں ۔ لیکن اگر وقت آئے اور حق و ناحق ، ظلم و انصاف کا سوال ہو تو حق کے لئے جان تک دے دیں ۔ یہ حضرت حسین ؓ کا اُسوہ ہے ۔ حضرت حسین ؓ نے حق کا اعلان کیا ، حق کی طرف سے دفاع کیا اور حق کے لئے اپنی جان دے دینا گوارہ کیا ، مگر باطل کے آگے سرنگوں نہ ہوئے ۔ جب باطل نے للکارا تو مقابلہ کرنے کے لئے نکلے ۔ حضرت حسین ؓ نے کسی پر لشکرکشی نہیں کی ۔ حضرت سیدالشہداء نے کسی پیاسا کو نہ تڑپایا ، کسی کو بھوکا نہ رکھا اور نہ کسی کی زندگی سے کھیلنے کی کوشش کی ، لیکن یہ سارے مطالم ان پر ڈھائے گئے ۔ حضرت حسین ؓ نے ان کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اور جب وقت آیا تو جان دینے سے دریغ نہ کیا ۔ حضرت حسین ؓ کی سیرت سے ہمیں بہت کچھ سبق ملتا ہے ۔ ہمیں ان واقعات کی روشنی میں اپنے لئے کوئی صحیح راہ متعین کرنی ہے ۔
آج ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں ۔ اسی لئے ہم پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں ۔ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ہر زمانہ میں حق پرستوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا ہے ۔ انہیں بڑی بڑی مصیبتوں کو برداشت کرنا پڑا ہے ۔ یہی صورت حضرت حسین ؓ کی زندگی میں پیش آئی تھی ۔ آج کے اس نازک دور میں ہمیں پہلے تو اپنا جائزہ لینا ہوگا اور ایمان و عمل میں جو خامیاں ہیں انہیں دور کرنا ہوں گی اور دوسرے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اگر ہمیں زندہ رہنا ہے تو باعزت طور پر زندہ رہنا ہے۔ مسلمان ذلت کی زندگی گذارنے کو تیار نہیں ہوسکتا ۔ اگر ہمیں نقصان پہونچانے اور برباد کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ہم اس کا مقابلہ کریں گے ۔ ذلت کی موت نہیں مریں گے ۔ موت زندگی میں ایک بار آتی ہے ، وہ اپنے وقت پر آکر رہے گی اور وہ جس طرح مقدر ہوچکی ہے اسی طرح آئے گی خواہ کوئی صورت اختیار کی جائے اور کتنی ہی محفوظ جگہ میں کیوں نہ پناہ لی جائے ۔ موت بہرحال آئے گی ، اسے کوئی ٹال نہیں سکتا ۔ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم اسی ہندوستان میں رہیں گے اور باعزت طور پر رہیں گے ۔ عزت کی زندگی کو حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا پڑے گا اور ہوسکتا ہے کہ ملی عزت اور حقوق حاصل کرنے کے لئے افراد کی قربانیاں دینی پڑیں ۔ ملت کی باعزت زندگی کے لئے چند افراد کی قربانیاں قابل قدر سہی مگر غیر معمولی نہیں ہوا کرتیں ۔ ہمیں بہرحال خود اپنی راہ نکالنی ہوگی ۔