عبداللہ محمد عبداللہ
شیخ الاسلام حضرت علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اس زمانہ میں حج کے بعد مدینہ منورہ گیا ہم لوگوں نے کھانا کھانے کے بعد دسترخوان کو لے کر ایک ڈھیر پر جھاڑ دیا تاکہ روٹی کے بچے ٹکڑوں اور ہڈیوں کو جانور کھا جائیں ، تھوڑی دیر کے بعد جب میں اپنے کمرے سے باہر نکلا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیاکہ ایک خوبصورت ۹سالہ بچہ ان ٹکڑوں کو چن چن کر کھارہا ہے ۔ مجھے سخت افسوس ہوا … بچے کو ساتھ لے کر قیامگاہ میں آیا اور اسے پیٹ بھر کے کھانا کھلایا کیونکہ میں ایسی ہستی کے شہر میں تھا جو غریبوں کا والی اور غلاموں کامولیٰ تھا … میرے اس برتاؤ کو دیکھ کر بچہ بے حد متاثر ہوا۔میں نے چلتے وقت اس سے کہا کہ بیٹے تمہارے والد کیا کرتے ہیں ؟
اُس نے کہا میں یتیم ہوں … !
میں نے کہا بیٹے میرے ساتھ ہندوستان چلو گے ؟ وہاں میں تم کو اچھے اچھے کھانے کھلاؤں گا … عمدہ عمدہ کپڑے پہناؤں گا … اپنے مدرسے میں تعلیم دوں گا … جب تم عالم فاضل ہوجاؤ گے تو میں خود تم کو یہاں لے کر آؤں گا اور تمہیں تمہاری والدہ کے سپرد کردوں گا … تم جاؤ اپنی والدہ سے اجازت لے کر آؤ …
لڑکا بہت خوش ہوا اور اچھلتا کودتا اپنی والدہ کے پاس واپس گیا… وہ بیچاری بیوہ دوسرے بچوں کے اخراجات سے پہلے ہی پریشان تھی اس نے فوراً اجازت دیدی… بچہ فوراً آیا اور مولانا کو بتایا کہ میں آپ کے ساتھ جاؤں گا … میری ماں نے اجازت دیدی ہے پھر پوچھنے لگا کہ آپ کے شہر میں چنے ملتے ہیں ؟
مولانا عثمانی نے بتایا یہ ساری چیزیں وافر مقدار میں تمہیں ملیں گی … مولانا کا بیان ہے کہ میری انگلی پکڑے پکڑے مسجد نبوی (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ) میں وہ میرے ساتھ آیا اور ٹھٹک کر رہ گیا … سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے روضۂ مبارک کو دیکھا اور مسجد کے دروازے کو … اور پوچھا کہ بابا یہ دروازہ اور روضہ بھی وہاں ملے گا ؟ میں نے اس سے کہا کہ بیٹا اگر یہ وہاں مل جاتا تو میں یہاں کیوں آتا …؟
لڑکے کے چہرے کا رنگ بدل گیا … میری انگلی چھوڑ دی بابا تم جاؤ … اگر یہ نہیں ملے گا تو میں ہرگز ہرگز اس دروازے کو چھوڑکر نہیں جاؤں گا … بھوکا رہوں گا … پیاسا رہوں گا … اس دروازہ کو دیکھ کر میں اپنی بھوک اور پیاس بجھاتا رہوں گا … جس طرح آج تک بجھاتا رہا ہوں … یہ کہہ کر بچہ رونے لگا اور اس کے عشق کو دیکھ کر میں بھی رونے لگ گیا ۔