عصمت ریزی و قتل ملزمین کی رہائی

   

لمحہ لمحہ وقت کے ہاتھوں اسیر دام ہے
زندگی اب زندگی کے نام پر الزام ہے
ملک بھر میں کل یوم آزادی کا جشن منایا گیا ۔ اس بار خصوصیت یہ رہی کہ یہ 75 سالہ جشن بھی تھا ۔ اس موقع پر سارے ملک میں تقاریب کا اہتمام پہلے سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کیا گیا ۔ کل ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے قوم کے نام خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں خواتین کے احترام کو فروغ دیا جانا چاہئے اور انہیں تحفظ و سلامتی فراہم کی جانی چاہئے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسی دن جس دن وزیر اعظم نے خواتین کے احترام کی وکالت کی وزیر اعظم ہی کی آبائی ریاست گجرات میں ان ہی کی پارٹی کی حکومت نے گجرات فسادات کے بدنام زمانہ کیس بلقیس بانو عصمت ریزی و قتل کے تمام ملزمین کو رہا ء کردیا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کیس کے سارے ملزمین کو سزائیں دی گئی تھیں اور وہ جیلوں میں بند تھے لیکن گجرات حکومت نے ان تمام کو رہاء کردیا ۔ یہ وزیر اعظم کی تقریر کے خلاف اختیار کردہ موقف ہے حالانکہ گجرات خود وزیر اعظم کی آبائی ریاست ہے اور وہاں خود وزیر اعظم کی پارٹی بی جے پی کی حکومت ہے ۔ ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ مرکزی حکومت نے یوم آزادانہ اور جشن جمہوریہ کے موقع پر قیدیوں کو رہاء کرنے کی پالیسی واضح کردی ہے ۔ مرکزی حکومت کے رہنما خطوط کے مطابق ان دونوں مواقع پر جن قیدیوں کو رہا کیا جانا چاہئے ان میں عصمت ریزی کے مجرمین کو شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ ان مجرمین کی سزائیں معاف کرتے ہوئے رہاء نہ کرنے کی ہدایت موجود ہے اس کے باوجود گجرات کی حکومت نے خود اپنی پارٹی کی مرکزی حکومت کی ہدایات اور رہنما خطوط سے انحراف کرتے ہوئے بلقیس بانو کیس کے تمام ملزمین کو رہاء کردیا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی ایک طرف خواتین کے احترام کا درس دینا ضروری سمجھتے ہیں تو دوسری جانب ان ہی کی پارٹی کے چیف منسٹر عصمت ریزی کے ملزمین کی رہائی کو یقینی بناتے ہیں۔ یہ بی جے پی کے دوہرے معیارات اور ڈوغلے پن کی ثبوت ہے ۔ کس طرح سے بی جے پی کی حکومتیں عوام کو اور خاص طور پر خواتین کو دھوکہ دے رہی ہیں اس سے واضح ہوجاتا ہے ۔
2002 کے گجرات فسادات میں کئی شرمناک واقعات پیش آئے تھے ۔ حیوانیت اور انسانیت کو شرمسار کرنے والے کئی واقعات پیش آئے تھے ۔ ان میں بلقیس بانو کیس بھی شامل تھے ۔ یہ کیس اجتماعی عصمت ریزی اور قتل عام سے متعلق تھا ۔ سارے ملک میںاس طرح کے وحشیانہ واقعات کی مذمت کی گئی تھی ۔ اس وقت کے خود بی جے پی کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے گجرات کا دورہ کرنے کے بعد کہا تھا کہ ان کا سر شرم سے جھک گیا ہے اور اب وہ بیرون ملک کس منہ سے جائیں گے ۔ اس طرح کے شرمناک واقعات کے بعد کئی ملزمین کی جانب سے کیمروں پر تک یہ کہا گیا کہ انہوں نے کس طرح سے حیوانیت کا ننگا ناچ کیا تھا ۔ کس طرح سے انہوں نے ہجوم کو بھڑکاتے ہوئے فساد پر اکسایا تھا ۔ کس طرح سے انہوں نے فسادیوں کی قیادت کی تھی ۔ کس طرح سے انہوں نے خواتین کی عصمتوں کو تار تار کیا تھا ۔کس طرح سے انہوں نے حاملہ خواتین کا پیٹ چاک کرتے ہوئے انسانیت کو شرمسار کیا تھا ۔ اس سب کے باوجود گجرات حکومت نے فسادیوں اور شر پسند عناصر کو عدالتوں سے قانون کے مطابق سزائیں دلانے کی بجائے ان کو بچانے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ کئی ملزمین کو پہلے ہی ضمانتیں دلوائی گئیں۔ ان کے خلاف مقدمات کو کمزور کیا گیا ۔ عدالتوںمیں ثبوت و شواہد پیش کرنے میں کوتاہی برتی گئی اور جن مقدمات میں ملزمین کو سزائیں بھی ہوئیں ان میں سے بیشتر کی رہائی کے لئے بھی اقدامات کئے گئے ۔ بلقیس بانو کیس بھی انہیں میں ایک ہے ۔
اب جبکہ گجرات اسمبلی انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں ایسے میں گجرات حکومت کی جانب سے ایک بار پھر اشرار کو رہائی دلاتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ سیاسی فائدہ کے علاوہ عصمت ریزی کے مجرمین کو رہاء کرواتے ہوئے ایک شرمناک حرکت کی گئی ہے ۔ مرکزی حکومت کی ہدایات کو بھی نظر انداز کردیا گیا اور وزیر اعظم کے بیان سے بھی اختلاف کرتے ہوئے یہ کارروائی کی گئی ہے ۔ مرکزی حکومت اور خود وزیر اعظم نریندر مودی کو اس معاملہ میں مداخلت کرتے ہوئے اپنی ہدایات پر عمل کو یقینی بنانا چاہئے اور عصمت ریزی کے مجرمین کو دوبارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنا چاہئے ۔