جسٹس شیکھر کمار یادو نے اس درخواست کو مستر د کردیا کہ ایک خاتون کے خلاف اجتماعی عصمت ریزی کا مقدمہ نہیں چلایاجاسکتا ہے۔
پریا گ راج۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیاکہ ”اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک عورت عصمت ریزی کا جرم نہیں کرسکتی ہے مگر وہ اس عمل میں مدد کرتی ہے تو اس پر ائی پی سی کی دفعہ 376ڈی کے تحت ترمیمات کے پیش نظر ’اجتماعی عصمت ریزی‘ کا مقدمہ چلایاجاسکتا ہے“۔
عصمت دری کے جرم سے متعلق ائی پی سی کی دفعہ375(عصمت ریزی) اور 376(عصمت ریزی کی سزا)کے دفعات کی وضاحت کرتے ہوئے جیسا کہ سال 2013میں ترمیم کی گئی تھی‘ جسٹس شیکھر کمار یادو نے اس درخواست کو مستر د کردیاجس میں کہاگیا تھا کہ عصمت ریزی کے جرم میں مبینہ کمیشن کے لئے خاتون کے خلاف مقدمہ نہیں چلایاجاسکتا ہے۔
ایک سنیتا پانڈے کی جانب سے سی آر پی سی یا (ہائی کورٹ کے اپنے اختیارات) کی دفعہ 482کے تحت دائرکردہ درخواست کو اس مشاہدہ کے ساتھ مذکورہ عدالت نے مسترد کردیاہے‘ سنیتا پانڈے نے اپنی اس درخواست کے ذریعہ سدھارتھ نگر کے ایڈیشنل او رسیشنس جج کی جانب سے ایک 15سالہ لڑکی کی مبینہ اجتماعی عصمت ریزی کے معاملہ میں ائی پی سی کی دفعات 212(ملزم کو پناہ دینا) اور 376ڈی(اجتماعی عصمت) کے تحت سنوائی کا سامنا کرنے کیلئے جاری کردہ سمن کو چیالنج کیاتھا۔
عورت درخواست گذار کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے مشاہد ہ کیاکہ ”ایک عورت عصمت ریزی کا جرم انجام نہیں دے سکتی ہے مگر اگر وہ اس عمل کی سہولت لوگوں کے ایک گروپ کو فراہم کرتی ہے تو اس پر ترمیمات کے ساتھ لائے گئے قوانین کی روشنی میں اجتماعی عصمت ریزی کا مقدمہ چلایاجاسکتا ہے“۔
واقعہ 2015جون کو پیش آیاتھا اور لڑکی کے والد نے جولائی 2015میں نامعلوم افراد کے خلاف ائی پی سی کی دفعات 363(اغوا ء کے لئے سزا)اور 366(اغوا‘ عورت کو قید میں رکھنا تاکہ اس سے شادی کی تعمیل کرے وغیرہ) کے تحت اس با ت کا الزام لگاتے ہوئے کہاکہ اس کی 15سال کی بیٹی کو کسی نے ورغلاکر اغوا کرلیاہے‘ ایف ائی آر درج کرائی تھی۔