ڈاکٹر رحیم رامش
اُردو کے اصناف سخن میں حمد اور نعت کو جو اعلیٰ مقام حاصل ہے، وہ کسی اور صنف کو نہیں ہے جس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کا ایمان کلمہ ہے اور کلمہ میں سب سے پہلے خدائے تعالیٰ کا ذکر آتا ہے اور بعد میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتا ہے۔ ان دونوں اسماء کے بغیر نہ مسلمان کا عقیدہ پورا ہوتا ہے، نہ ایمان لہذا حمد اور نعت سے مسلمان کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ حمد و نظم ہے جس میں خدا کی تعریف کی جاتی ہے اور نعت وہ نظم ہے جس میں حضورؐ کی تعریف و توصیف ہوتی ہے اور اسوہ حسنہ کا ذکر ہوتا ہے۔ نعت لکھتے وقت شاعر کو کافی احتیاط کرنی پڑتی ہے تاکہ شرک کا شائبہ نہ ہو۔
نعت لکھنا، نعت پڑھنا اور نعت سننا بھی عبادت سے کم نہیں کیونکہ حضورؐ کی تعریف سن کر خدا بھی خوش ہوجاتا ہے، ہر شاعر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ غزل اور دیگر نظموں کے علاوہ حمد اور نعت پر بھی طبع آزمائی کی جائے اور نعتیہ مجموعہ شائع کرنے کی خواہش بھی دل میں پیدا ہوتی ہے اور نعتیہ مجموعہ شائع کرکے شاعر ایک روحانی سکون محسوس کرتا ہے۔
تاریخی شہر ورنگل علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں کئی بزرگ شاعر موجود ہیں، شہر ورنگل میں ادبی، حمدیہ اور نعتیہ مشاعرے اکثر منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ ورنگل کے شاعروں میں ایک مشہور شاعر اقبال دردؔ بھی ہے جو اردو کی بقاء کیلئے ادبی محفلیں سجاتا ہے۔ اردو کی ترقی و ترویج کے لئے ہمیشہ کمربستہ رہتا ہے۔ اقبال درد کو اردو زبان سے خاص لگاؤ ہے اور اردو کی خدمت کے لئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کردی ہے۔ اقبال درد کے دل میں اردو زبان کا درد ہے، اسی لئے وہ اردو کی ترقی کے لئے دن رات فکرمند رہتے ہیں۔
اقبال درد کے دو شعری مجموعے ’’متاع درد‘‘ 2008ء میں اور ’’نقوش درد‘‘ 2016ء میں شائع ہوچکے ہیں اور ان کی کافی پذیرائی بھی ہوئی ہے۔ ’’عقیدت کا آئینہ‘‘ اقبال درد کا تیسرا شعری مجموعہ ہے جو نعتیہ کلام پر مبنی ہے۔ ’’عقیدت کا آئینہ‘‘ میں اقبال درد نے حضورؐ سے جو عقیدت ہے، وہ ایک کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے رکھ دی ہے، یہ بات سچ ہے کہ رسولؐ کی مدحت سے ہی خدا کو راضی کیا جاسکتا ہے، اسی تعلق سے وہ کہتے ہیں۔ اشعار ملاحظہ ہوں۔
نسبت رسول پاکؐ سے قائم سدا رکھو
ہوگا خدا کا وہ ہی جو ہوگا رسولؐ کا
وہ نبیؐ کا ہوا دردؔ وہ خدا کا ہوا
ہر اُمتی کے لئے یہ پیام روشن ہے
ہر مسلمان کی طرح اقبال درد کا بھی یہ ایقان ہے کہ جہاں نعت کی نورانی محفل سجائی جاتی ہے، وہاں فرشتے بھی تشریف لاتے ہیں، وہ کہتے ہیں:
غلامان احمد کی محفل جہاں ہو
فرشتے وہاں پر اُترتے رہیں گے
نعت لکھنے سے ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور دل و دماغ معطر ہوجاتا ہے اور میرے قلب کو سکون ملتا ہے اور نعت پڑھنے سے قلب کی دنیا گلوں کی خوشبو کی طرح مہک اٹھتی ہے۔ اس کو اقبال درد اپنے شعروں میں اس طرح لکھتے ہیں:
ایمان تازہ ہوتا ہے سن سن کے نعت کو
نعتوں کی روشنی میں مری زندگی چلے
مہک اُٹھتی ہے ، دنیا قلب کی اقبال دردؔ اپنی
نبیؐ محترم کی نعت جب ترقیم کرتا ہوں
نعت لکھتے وقت شاعر کو شرک اور بدعت کو بالائے طاق رکھ کر اپنے نیک، پاک اور صاف خیالات کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنا مدعا خدا سے بیان کرتے ہیں اور اپنی تمام خواہشات کی تکمیل کے لئے حضورؐ کا وسیلہ ضروری قرار دیتے ہیں۔ اشعار ملاحظہ فرمایئے:
وسیلہ اُن کا اگر نہیں تو
دعا بھی ہرگز دعا نہیں ہے
خدا کے بعد ہی درجہ بلند احمدؐ کا
خدا کے بعد رسولؐ خدا کی بات کرو
اقبال دردؔ اپنی نعتیہ شاعری میں خدا سے یہی دعا کرتے ہیں کہ روضہ اقدس پر حاضری ہو اور انہیں مدینہ کی زیارت نصیب ہو۔ اشعار ملاحظہ ہوں۔
اک بار دیکھ لے یہ تمنا ہے دردؔ کی
سوتے میں جاگتے میں مدینہ نظر میں ہے
میں بھی دیکھوں مرے سرکارؐ کا روضہ اک دن
کاش میرا بھی مدینے کا سفر ہوجائے
شاید اقبال دردؔ نے دل کی گہرائیوں اور صدق دل سے یہ دعا مانگی ہوگی، اسی لئے ان کی دعا کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ اللہ رب العزت نے ان کی بات سن لی اور ان کی تڑپ دیکھ کر انہیں مدینے کی سرزمین پر بُلا ہی لیا۔ اس طرح اقبال دردؔ کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں 2018ء میں عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی۔
مدینہ کی زیارت کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مدینہ ایک بار دیکھنے سے کسی کا بھی دل نہیں بھرتا بلکہ مدینہ کی بار بار زیارت کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اقبال دردؔ کہتے ہیں کہ دنیا کی سرزمین پر اگر کہیں جنت ہے تو وہ صرف مدینہ کی سرزمین ہے، مدینہ میں زائرین ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے جنت کے سامنے آئینہ رکھ دیا گیا ہے اور مدینہ جنت کا ہوبہو عکس ہے، اسی خیال کو انہوں نے اس طرح بیان کیا ہے:
اک بار دیکھنے سے تو بھرتا نہیں ہے دل
میرے نبی کا شہر ہے جنت کا آئینہ
اقبال دردؔ کہتے ہیں کہ اپنی آخرت کو اگر سنوارنا ہو تو ہر اُمتی کو سنت کی پیروی کرنا چاہئے سنت پر عمل کرکے ہی ہر امتی کو کامرانی اور کامیابی مل سکتی ہے اور اسے دنیا میں اور آخرت میں بھی خدا کے سامنے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ شعر ملاحظہ فرمایئے:
دنیا میں آخرت میں رہے وہ ہی کامران
سنت کی راہ پر جو فقط امتی چلے
اقبال دردؔ حضورؐ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپؐ کا کردار ساری دنیا میں ارفع و اعلیٰ ہے جس کا ذکر تاریخ میں بھی آیا ہے اور ساری دنیا نے بھی اعتراف کیا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ دشمنوں کو معاف کرتے تھے، ان پر ظلم و ستم کرنے والوں کو اور دشمنوں کو گلے سے لگاتے تھے اور انہیں دعائیں دیتے تھے۔ اسی لئے اقبال دردؔ کہتے ہیں:
ساری تاریخ اٹھا لیجئے دنیا کی مگر
آپؐ سا کوئی نہ کردار میں اعلیٰ دیکھا
’’عقیدت کا آئینہ‘‘ کی اشاعت پر میں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کے پچھلے شعری مجموعوں کی طرح اس کی بھی خوب پذیرائی ہوگی۔ ’’عقیدت کا آئینہ‘‘ میں ڈاکٹر جعفر جری سابق صدر و چیرپرسن بورڈ آف اسٹیڈیز ساتا واہنا یونیورسٹی کریم نگر نے جو مضمون لکھا، وہ اقبال دردؔ کی زندگی کا آئینہ ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور ڈاکٹر عزیز احمد عرسی کا مضمون ’’مشاعرے کروانے والا آدمی‘‘ بھی ’’عقیدت کا آئینہ‘‘ کی زینت بڑھا رہے ہیں۔٭