مولانا محمد ارشد علی قاسمی
قرآن مجید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جملہ معجزات میں ایک زندہ جاوید معجزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام معجزات میں یہ معجزہ امتیازی شان رکھتا ہے۔ دشمنان اسلام اور غارت گران ایمان، گمراہ فرقوں اور باطل تحریکوں نے قرآن مجید کی امتیازی شان اور معجزانہ پہنچان کو مجروح اور مشکوک کرنے کی بہت سی تدبیریں اور ترکیبیں کیں، الفاظ میں ردوبدل کیا، سورتوں کی ترتیب میں اُلٹ پھیر کی، تفسیر و تشریح کے نام پر تحریف کرڈالی، ان سب کے باوجود قرآن مجید کی ابدی صداقت اور اس کی دائمی ہدایت کی معجزانہ شان پوری آن بان کے ساتھ آج بھی باقی ہے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ اوصاف و کمالات میں سے ’’منصب ختم نبوت‘‘ کی ایک امتیازی شان ہے۔ اللہ تعالی نے جملہ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں میں سے صرف آپ ﷺ ہی کو اس منصب کے لئے منتخب فرمایا۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس امتیازی وصف کو جس تاکید و تفصیل اور تکرار کے ساتھ بیان فرمایا، اپنے کسی دوسرے وصف کا ذکر نہیں فرمایا۔
نبوت محمدی کا باغی گروہ، قادیانی فرقہ نے رسول اللہ ﷺکی شان ختم نبوت کو مجروح و مشکوک ہی نہیں، بلکہ معدوم و مفقود کرنے کے لئے ان تھک کوششیں اور کاوشیں کی، ایڑی چوٹی کا زور لگایا، خاتم النبیین کے معنی و مفہوم میں نت نئی تعبیرات و تاویلات کی علمی موشگافیوں اور سخن سازیوں میں کوئی کمی اور کسر باقی نہ رکھی۔ پھر جب یہ موشگافیاں اور سخن سازیاں کام نہیں آئیں تو مادیت اور پروپیگنڈا اور ذرائع ابلاغ کی طاقت کے ساتھ برسر پیکار ہے۔ لیکن اس میں بھی ناکامی اور رسوائی قادیانیت کا مقدر ہے، اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ کی شان ختم نبوت کا حقیقی معنی و مفہوم آج بھی وہی ہے، جو آپ ﷺنے آج سے چودہ سو سال پہلے فرمایا تھا۔ چند نادان اور عقل و فہم سے نادار لوگوں کی مٹھی بھر جماعت کے علاوہ پوری اُمت مسلمہ سرکار دوعالم ﷺکو آخری نبی تسلیم کرتی ہے۔
علمائے اسلام نے رسول اللہ ﷺ کی شان ختم نبوت کو بتانے اور سمجھانے کے لئے اتنا کچھ لکھ دیا کہ اس موضوع پر ایک مستقل کتب خانہ تیار ہو گیا۔ اگر قادیانی فرقہ کا وجود اور ظہور نہ ہوتا تو کیا یہ لازوال اور بے مثال کتب خانہ تیار ہو سکتا تھا؟
کیا عقیدہ ختم نبوت کی معجزانہ شان اتنا کھل کر سامنے آتی؟۔
پھر یہ کہ عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت محض کسی فرقہ کی مخالفت نہیں، بلکہ اس میں ہمارے عشق و وفا کا امتحان بھی ہے۔ جھوٹے نبی مسیلمہ کذاب کے فتنہ کے وقت صحابہ کرام نے جس قوت اور شدت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا، وہ ایمانی غیرت و حمیت، حب نبی اور عشق رسول کی ایک تابناک اور روشن مثال ہے۔ مسیلمہ کی سرکوبی کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جنگ یمامہ میں تاج ختم نبوت کی پاسبانی کے لئے اپنی مقدس جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
اسلامی تاریخ کی یہ عجیب اور حیرت انگیز حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جملہ غزوات میں اسلام کی اشاعت و سربلندی کے لئے جملہ بارہ سو صحابہ کرام شہید ہوئے، لیکن صحابہ کرام کی یہی کل تعداد صرف ایک جنگ یمامہ میں شہادت سے سرفراز ہوئی۔ عشق و وفا کے اس امتحان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ عظیم جاں نثاری اور جانبازی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے:
جو جان مانگو تو جان دے دیں ، جو مال مانگو تو مال دے دیں
مگر یہ ہم سے کبھی نہ ہوگا ، نبی کا جاہ و جلال دے دیں
OoO