مولانا غلام رسول سعیدی
زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور روز افزوں ترقی نے طبابت و حکمت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ علاج کرانا شرعاً جائز ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ حالتِ احرام میں سَر کے بالوں کا کٹوانا منع ہے، لیکن اگر کسی شخص کے سر میں جوئیں پڑ جائیں تو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ وہ بالوں کو منڈواکر فدیہ دے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اور اپنے سر کے بالوں کو اس وقت تک نہ منڈواؤ جب تک کہ ہدی اپنی جگہ پر نہ پہنچ لے اور جو بیمار ہو یا جس کے سر میں جوئیں ہوں تو وہ (بال منڈواکر) فدیہ ادا کردے‘‘ (سورۃ البقرہ۔۱۹۶) جب سر میں جوئیں ہوں اور اس کی وجہ سے تکلیف ہو تو اس کا علاج یہی ہے کہ بال منڈوا دیئے جائیں۔ پس قرآن کریم کی اس آیت سے علاج کی اصل ظاہر ہوگئی۔رسول اللہ ﷺنے مختلف بیماریوں کے لئے دوائیں تجویز فرمائیں، اپنا اور صحابۂ کرام کا علاج فرمایا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ’’یوم احد کو جب حضور ﷺ کا چہرۂ مبارک زخمی ہو گیا تو حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے زخم کو دھویا اور جب خون نہ رُکا تو انھوں نے چٹائی جلاکر اس کی راکھ زخم میں بھردی‘‘۔ ابوداؤد میں ابن عساکر سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے ناک میں دوا ڈالی۔ ابونعیم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا، وہ فرماتی ہیں کہ ’’ہم اکثر رسول اللہ ﷺ کا بیماریوں میں علاج کیا کرتے تھے‘‘۔ ابوداؤد میں حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’بیماری اور دوائیں دونوں اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہیں۔ اے اللہ کے بندو! دوا استعمال کرو اور حرام دوا سے بچو‘‘۔ لہذا رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کے بعد اب علاج کرانے کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے۔
بعض لوگ علاج کرانے کو اللہ پر توکل کے خلاف سمجھتے ہیں، اس سلسلے میں گزارش ہے کہ کسی شے کو حاصل کرنے کے لئے اس کے اسباب کو حاصل کرنے کے بعد اس کے نتیجہ کو اللہ پر چھوڑ دینا ’’توکل‘‘ ہے، نہ کہ اسباب کو بھی چھوڑ دیا جائے۔ جس طرح بھوک پیاس مٹانے کے لئے کھانا، پینا، روزی کمانا اور مشکلات میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے، اسی طرح بیماریوں کا علاج کرانا بھی توکل کے منافی نہیں ہے۔
حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’جس شخص نے اپنے جسم پر داغ لگوایا یا دم کرایا وہ توکل سے بری ہو گیا‘‘ (ترمذی) حدیث شریف میں ’’اکتواء‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اکتواء عرب کا ایک معروف طریقۂ علاج تھا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جسم کے جس حصہ میں درد ہو، اسے گرم لوہے سے داغ دیا جائے۔ اس حدیث میں حضور ﷺنے اکتواء کو خلاف توکل قرار دیا ہے، جس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ علاج کرنا بھی توکل کے خلاف ہے۔چوں کہ حضور اکرم ﷺ نے بکثرت اکتواء سے علاج کیا ہے، اس لئے اس حدیث شریف کی توجیہ اور تاویل ضروری ہے۔ ترمذی میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے سعد بن زرارہ کا اکتواء سے علاج کیا۔ مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ابی بن کعب کے پاس ایک طبیب بھیجا، جس نے ان کا اکتواء سے علاج کیا۔ ان احادیث کے ملاحظہ کے بعد اس حدیث شریف کی توجیہ مزید ضروری ہو گئی، جس میں اکتواء کو منافی توکل قرار دیا گیا ہے۔ علامہ ابن قتیبہ فرماتے ہیں کہ اکتواء سے اس شخص کو منع کیا گیا ہے، جو حالتِ صحت میں مرض کے خوف سے بلاضرورت اکتواء کرے، کیونکہ اس کا یہ عمل توکل اور ایمان بالتقدیر کے خلاف ہے۔ خطابی فرماتے ہیں کہ جو شخص اکتواء کو قطعی علاج قرار دیتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ اگر اکتواء نہ کرایا تو مر جائے گا تو اسے اکتواء سے منع فرمایا ہے، کیونکہ ایسی صورت میں محض اکتواء پر اعتماد ہوگا، اللہ تعالیٰ سے شفاء کی امید نہ ہوگی اور یہ یقیناً توکل کے خلاف ہے اور جو شخص اکتواء کو محض علاج کا سبب قرار دے اور شفاء کی امید اللہ تعالیٰ سے وابستہ رکھے، اس کے لئے اکتواء جائز ہے اور یہ حکم ہر علاج کا ہے، صرف اکتواء کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ (اقتباس)