علاج کیلئے جلد بازی نہ کریں

   

کالج کے زمانے میں میرے دوستوں کا ایک گروپ ہوا کرتا تھا ہم سب پڑھائی کے ساتھ ساتھ خوب مزہ بھی کیا کرتے تھے ۔ کالج کی پڑھائی ختم ہوتے ہی ہم سب اپنا کیریئر بنانے میں مصروف ہوگئے ۔ میرا ایک بے حد عزیز دوست ابرار مومن ڈینٹل سرجن بن گیا ۔ گروپ ہی کی ایک ساتھی کے ساتھ ازدواجی بندھ میں بند ہوگیا اور ممبئی کے قریب بھیونڈی میں پریکٹس شروع کردی ۔ ضمناً ڈاکٹر ابرار مومن میرے نکاح میں بطور گواہ شامل تھا میں ممبئی سے حیدرآباد چلی آئی لیکن ہم ہمیشہ رابطہ میں رہے ، کچھ ہی دنوں قبل اس نے میرے ساتھ صحت کے متعلق سے کچھ معلومات شیئر کی جو کہ آج کے حالات میں بے حد اہمیت رکھتی ہیں اور میں ان تمام معلومات کو ’’ سیاست ‘‘ کے توسط سے آپ تک پہنچانا چاہتی ہوں تاکہ صحت کے تئیں ہم سب میں اتنا شعور پیدا ہو کہ ہم اپنی صحت کا صحیح طور پر خیال رکھ سکیں ۔
اگر آپ کو صحت کا کوئی مسئلہ ہو تو ڈاکٹر کے پاس جانے سے قبل اس مضمون کو ایک بار پڑھ لیں ۔
سائرہ کو دو تین دن سے ہلکا بخار تھا ۔ اگر اس نے کوئی دوا نہ بھی لی ہوتی تو اس کی طبعیت خود بخود ٹھیک ہوجاتی ، لیکن وہ ڈاکٹر کی کلینک جا پہنچی اور شروع ہی میں ڈاکٹر نے کئی ٹسٹ کروانے کی صلاح دی ۔ ٹسٹ کے نتائج میں بخار کی کوئی وجہ نہ ملی البتہ کولیسٹرول اور شکر کی سطح میں تھوڑی سی زیادتی تھی جو کہ عموماً عام ہے ۔ بخار تو اُتر چکا تھا لیکن ڈاکٹر نے رائے دی کہ چونکہ آپ کا کولیسٹرول بڑھا ہوا ہے اور شکر کی سطح بھی تھوڑی بڑھی ہوئی ہے اس لئے آپ ’’ پری ڈابیٹک ‘‘ ہیں ۔ انہیں کنٹرول کرنے کیلئے دوائی لینی ہوگی اور ساتھ کھانے پینے پر پابندیاں لگادی اور ہماری یہ فطرت ہے کہ ہم کھانے میں شاید پرہیز نہ کریں لیکن دوائیاں لینا نہیں بھولتے ۔ تین ماہ بعد کئے گئے ٹسٹ سے معلوم ہوا کہ کولیسٹرول تھوڑا کم ہوا لیکن بلڈپریشر تھوڑا بڑھا ہوا تھا اور آپ کو ایک اور دوا دی گئی ۔ اب وہ3 دوائیاں لے رہی تھی ۔ یہ سب سن کر سائرہ کی پریشانی بڑھ گئی ، وہ صحیح طور پر سو نہ پاتی ڈاکٹر نے نیند کی گولی لکھ دی ۔ اب 4 دوائیاں لے رہی تھی ۔ ان دوائیوں کو کھانے سے اُس کو سینہ میں جلن اور تیزابیت کا احساس ہونے لگا ۔ ڈاکٹر کے مشورہ پر اس نے خالی پیٹ گیس کو کم کرنے لئے دوائی کھانی شروع کی ۔ اب وہ 5 دوائیاں کھارہی تھی لیکن کچھ افاقہ نہ ہوا ۔ چھ ماہ گذر گئے ایک دن اس کو سینے میں درد محسوس ہوا اور وہ ہاسپٹل کی ایمرجنسی میں جا پہنچی ۔ مکمل ٹسٹ اور ڈاکٹر نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا کہ شکر ہے آپ بروقت آگئیں ورنہ معاملہ سنگین ہوسکتا تھا ۔ آپ ان تمام ٹسٹ کو جو میں آپ کو لکھ کردے رہا ہوں کروالیں اور دل کیلئے ان دو گولیوں کو لینا لازمی ہے ۔ اور قلب کے ماہر ڈاکٹر کے مشورے پر اس نے ایک اینڈوکرائینولوجسٹ سے ربط کیا جس نے کہا کہ یہ سب تھائیرائیڈ کی وجہ سے ہوسکتا ہے اس لئے دوائی لازمی ہے ۔
اب سائرہ کل نو دوائیاں لے رہی تھی ۔ قارئین میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ اگر ابتدا میں سائرہ گھبرا کر ایک معمولی بخار کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس نہ جاتی اور اگر ڈاکٹر اتنے سارے ٹسٹ کروانے کی بجائے یہ کہہ دیتا کہ معمولی بخار ہے آرام کریں اور ہلکی پھلکی غذا کھائیں تو یقیناً بخار دو تا تین دن میں کم ہوجاتا لیکن پھر ڈاکٹر اور دوا ساز کمپنیاں اپنی روزی کیلئے کماتے ، یہ آج کے ماڈرن زمانے میں ایک بہت بڑا سوال ہے ۔ یہ کون طے کرتا ہے کہ آپ کو ذیابیطس ، قلب ، تھائیرائیڈ ، بلڈپریشر کی بیماری لاحق ہے ۔ یہ معیارات آخر کون طے کرتا ہے ؟
آج کل دوا ساز کمپنیاں منافع کھانے کی سعی میں ایک معیار مقرر کر لیتے ہیں اور ان کے اصرار پر WHO ان معیارات کو قبول کر لیتا ہے اور محض ٹسٹ کے نتیجے میں ذیابیطس کا لیبل چپکا دیا جاتا ہے جبکہ اس شخص میں ذیابیطس کی علامات ندارد تھیں یہ ہی حال بلڈپریشر کا بھی ہے ۔ یہ آپ کا جدید ترین نظام ہے ۔ اس میں دوا ساز کمپنیاں اور ڈاکٹر سب ہی شامل ہیں ۔ اس لئے سوچیں اور غور کرنا شروع کریں کہ آپ کا رویہ آپ کی سوچ کیا ہونی چاہئے ۔ سائرہ نے اگر تحمل سے کام لیا ہوتا تو بخار چلا جاتا اور اس کو جسمانی ، ذہنی اور دماغی طور پر پریشانی نہ ہوتی ۔
٭٭٭٭