معقول تشریح و تفہیم میں حضرت شیخ الاسلامؒ کا اسلوب
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے مذہب اسلام کی تشریح و تفہیم میں اسرار و حکمتوں کا اضافہ کرکے علم کلام کو ایک نئی جہت بخشی اور اس کے اطراف و اکناف کو نہایت وسیع و تنوع بنادیا اور اس خصوص میں بھی قدیم متکلمین پر سبقت لے گئے ہیں اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے آپ کے قلب مبارک پر نت نئے علوم و معارف کو منکشف فرمایا اور آپ نے جدید اسلوب میں قرآن و حدیث کے علوم کو بیان فرمایا اور احکام شریعت کی تشریح فرمائی ۔ آپ کی تصنیفات میں ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ ایک معرکۃ الآراء تصنیف ہے اور علم کلام میں سب سے منفرد کتاب ہے ۔ علاوہ ازیں آپ نے اپنی تصنیف ’’الفوز الکبیر فی اصول التفسیر‘‘ میں قرآن پاک کے موضوع کو پانچ بنیادی علوم میں منقسم فرمایا : (۱) علم احکام جس میں عبادات ، معاملات ، معاشرت اور سیاست شامل ہیں ۔ (۲) علم الجول یعنی علم المناظرہ یا علم مخاصمۃ جس میں مذہب حق کے اثبات کے ساتھ چار گمراہ فرقوں مشرکین ، یہود ونصاری اور منافقین کے ساتھ بحث و مباحثہ اور ان کی تردید کی گئی ہے ۔ (۳) علم تذکیر بایام اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور نوازشوں کا ذکر ، آسمان و زمین کی تخلیق ، نیز انسان کی ضروریات ، آرام اور زینت کے لئے پیدا کی گئی نعمتوں اور خدائے ذوالجلال کی دیگر صفات کا ذکر ملتا ہے ۔(۴) علم تذکیر بایام اللہ : وہ علم ہے جس میں ان واقعات اور احوال کا ذکر ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرمابرداروں کو کیسے نجات عطا کرتا ہے اور نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے اور مجرمین کو کس طرح ہلاک و برباد کرکے عبرت کا نشان بناتا ہے ۔(۵) علم التذکیر بالموت وما بعد الموت : موت اور آخرت کے اجوال کا ذکر حشر ، نشر ، حساب کتاب ، سوال جواب ، جنت و دوزخ کا ذکر ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے مطابق قرآن مجید کی تمام آیتیں انہی بنیادی پانچ علوم کے اطراف گھومتی ہیں منجملہ ان اقسام کے دوسری قسم یعنی گمراہ فرقوں کی تردید ، مشرکین ، یہود و نصاریٰ اور منافقین کا رد کرنے کی ذمہ داری متکلمین پر عائد ہوتی ہے ۔ یعنی جب اسلام کا ظہور ہوا تو اس وقت ان چار فرقوں سے بطور خاص ٹکراؤ ہوا ۔ ان ادیان و مذاہب کے ماننے والوں نے ہر وقت اپنے اپنے خیالات کی حمایت و مدافعت میں ہر حربہ استعمال کیا اور بعض اوقات اسلام قبول کرنے والے بھی ان سے متاثر ہوتے رہے لیکن قرآن کے اسلوب کے مطابق علماء اسلام نے ان باطل نظریات کا مقابلہ کیا اور دین اسلام جو کہ دین فطرت اور دین انسانیت ہے۔ ہر دور میں زمانہ کے چیالنجوں سے محفوظ و مامون رہا ۔ بعد ازاں یہ امت میں انتشار ہوا اور کئی ایک فرقے وجود میں آئے ۔ واضح رہے کہ اختلاف کا ہونا فطری ہے ۔ دنیا کا کوئی مذہب یا کوئی مکتب اختلاف سے محفوظ نہیں کیونکہ یہ ایک طبعی قانون ہے لیکن اسلام کا کمال یہ ہے کہ اس امت کی اکثریت اور اغلبیت صراط مستقیم اور مذہب حق پر ہمیشہ کار بند رہی۔ فرقوں کا ہونا عام بات ہے ۔ تاہم ملت کی اکثریت کو حق پر قائم رکھنے کا کام علم کلام کا ہے ۔
مخفی مباد کہ عقائد باطلہ کی تردید اور اہل اسلام کو جادۂ حق پر قائم رکھنے میں اسلوب اور طریقہ کار کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ چنانچہ حضرت شیخ الاسلام امام عارف باللہ محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ بانی جامعہ نظامیہ علیہ الرحمہ کے اسلوب اور آپ کے معاصرین کے اسلوب میں نمایاں فرق محسوس کیا جاسکتا ہے ۔
حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کا تردید اور اثبات میں اسلوب معقولی اور ناصحانہ معلوم ہوتا ہے ۔ اس میں کہیں بھی فریق مخالف کی تذلیل و تحقیر کا عنصر نظر نہیں آتا ہے بلکہ ایسا دلکش اور منطقی اسلوب ہے کہ مخاطب اور فریق مخالف پر نفس حقیقت کھل جاتی ہے بلکہ کئی دفعہ حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ قرآن و حدیث کے دلائل و براہین سے ہٹ کر خیالات کی دنیا میں لاکر عقل و خرد کی کھلی فضاؤں میں غور و فکر کرنے میں دعوت دیتے نظر آتے ہیں ۔ اسلوب معقول اور مدلل کے ساتھ مخاطب کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا یا اس کے جذبات کو ٹکرانے والا نہیں ہوتا ۔ بناء بریں آپ کا مخاطب کبھی آپ کی تردید کا درپے ہوتا ہوا نظر نہیں آیا ۔ اور یہی حکمت کا تقاضہ ہے کہ مخاطب اور فریق مخالف باوجود اختلاف رائے کہ تردید اور باہمی مخاصمت کا شکار نہ ہو بلکہ احترام کی دیوار ہمیشہ قائم رہنی چاہئیے ۔ آپ کی تصنیفات آپ کے منفرد اسلوب کی غماز ہیں ۔ بطور مثال چند ایک اقتباسات درج کئے جاتے ہیں ۔ مغرب کے فلسفہ اور حکمت جدیدہ سے مرعوب ہوکر بعض اہل اسلام عقل کے مطابق اسلام کی تشریح و تاویل میں گمراہی کا شکار ہوگئے تو ان کی تردید میں آپ نے عقل کے استعمال کے مختلف معیار کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں : ’’ یہ امر پوشیدہ نہیں کہ جس شخص کی طبیعت میں جو صفت غالب ہوتی ہے اس کے مناسب وہ اپنی عقل سے کام لیتا ہے ۔ یہاں تک کہ اوصاف رذیلہ میں بھی وہ پورا کام دیتی ہے ۔ مثلاً چور چوری کی ایسی تدبیر سوچتا ہے کہ دوسرے کو نہیں سوجتیں اسی طرح دنیا طلبی کی جو تدابیر حق عقلاء سوچتے ہیں مثلاً جھوٹی نبوت و امامت و ولایت وغیرہ کے دعاوے اور بحسب ضرورت تاویلات اور الہامات اور خوابوں سے مدد لینی اظہر من الشمس ہیں ۔ اس سے بھی ظاہر ہے کہ عقل مثل شمشیر ایک آلہ ہے جس سے چاہو دشمن کو مارو یا دوست کو یا خودکشی کی جائے وہ اپنا کام کرے گی ۔ (کتاب العقل ص : ۱۶۳)
وجود باری تعالیٰ نبوت ، جنت ، دوزخ ، حشر نشر ، سزا و جزا علم کلام کے اساسی موضوعات اور بنیادی مباحث کا حصہ ہیں ۔ حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ جنت و دوزخ پر عقلی بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : ’’ ہم نے جنت و دوزخ کے چند حالات جو قرآن و حدیث میں واردا ہیں بلاکم و کاست لکھ دیئے اور اس کا کچھ خیال نہ کیا کہ اس قسم کے مضامین پر استہزاء اور تضحیک ہوا کرتی ہے اس لئے کہ اگر تضحیک مانع ہو تو ہم سے کوئی اسلامی کام نہ ہوسکے گا یہاں تک کہ نماز اور روزوں کا ادا کرنا بھی مشکل ہوجائے گا ۔ کیونکہ اس پر بھی نئی روشنی کے حضرات مضحکے اڑاتے ہیں اور خدا اور رسول ﷺ کو یاد دلانے والے ان کی محفلوں میں قل اعوذے اور ملائے وغیرہ القاب سے ملقب کئے جاتے ہیں ۔ ہمیں قرآن شریف بتلارہا ہے کہ استہزاء کرنے والے اس زمانے میں بھی موجود تھے جبکہ قرآن نازل ہورہا تھا مگر خود خدائے تعالیٰ نے اس کی مکافات کا ذمہ لیا ہے جیسا کہ ابتدائے قرآن ہی میں حق تعالیٰ نے اس کی خبر دی ۔ ’’قَالُوْآ اِنَّا مَعَكُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُوْنَ،اَللّهُ يَسْتَهْزِیُٔ بِـهِـمْوَيَمُدُّهُـمْ فِىْ طُغْيَانِـهِـمْ يَعْمَهُوْنَ‘‘ ۔ اب ہم کو کسی کے استہزاء کی کیا پرواہ ۔البتہ یہاں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ حق تعالیٰ نے جنت و دوزخ کے حالات جو اس قسم کے بیان کئے ہیں ان کا وجود ممکن ہے یا نہیں ؟ اور جب ان کا امکان ثابت ہوجائے تو صرف یہ بحث باقی رہ جائے گی کہ خدائے تعالیٰ ان ممکن چیزوں کے پیدا کرنے پر قادر ہے یا نہیں ؟ پھر جب یہ دونوں امر طئے ہوجائیں تو تضحیک کا منشا فقط یہ رہ جائے گا کہ ان چیزوں کو کبھی دیکھا نہیں جس سے استبعاد اور استعجاب پیدا ہو ‘‘ ۔
(مقاصد الاسلام جز:۵ ص:۱۶۔۱۷)
مندرجہ بالا اقتباسات سے واضح ہے کہ حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ کا علم کلام میں اسلوب خالصۃ دینی اور اسلامی ہے ، وہ اسلامی معتقدات اور اوا مرونواہی کی بتکلف عقلی تاویل و تشریح کے قطعاً قائل نہیں۔سرسید احمد خان کا نظریہ تھا کہ ’’اُس زمانے میں … ایک جدید علم کلام کی حاجت ہے جس سے یا تو ہم علوم جدیدہ کے مسائل کو باطل کردیں یا مشتبہ ٹھہرائیں یا اسلامی مسائل کو ان کے مطابق کرکے دکھائیں ‘‘ ۔
(بحوالہ تاریخ ہندوستان سوج کوثر ص : ۱۵۹)
حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کا نظریہ امام المنصور ماتریدی، امام غزالی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جیسے قدیم اسلامی متکلمین کے عین مطابق تھا اور آپ نے اس کے مقابل مغربیت سے مرعوب سرسید احمد خان اور اس وقت کے جدید علم کلام کے نام نہاد دعویداروں کی سخت تردید و تنبیہہ کی ہے ۔
اس دور پرفتن میں حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کے وابستگان کا فریضہ ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اسلام کی تشریح و توضیح کا فریضہ انجام دیا جائے اور اسلام کی حقانیت کو یہودیت ، نصرانیت ، ہندوازم اور بدھ ازم و جین ازم کی معقول تردید کرتے ہوئے اسلام کی وسعت و متنوع کا منطقی اسلوب میں جواب دیں اور ثابت کریں کہ دین اسلام فطری اور انسانیت کا مذہب ہے ۔ وہ نہ صرف ترقی کا باعث ہے بلکہ انسانی تمدن کی بقاء اسی میں ہے ۔