عمران خان کی گرفتاری

   

پڑوسی ملک پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو اچانک کی گئی کارروائی میں گرفتار کرلیا گیا ۔ ویسے تو پہلے بھی عمران خان کی گرفتاری کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے لیکن اس وقت کچھ نہیں کیا گیا اور کل جب عمران خان کچھ مقدمات کے سلسلہ میںعدالت پہونچے تو انہیں احاطہ عدالت سے ہی پاکستانی رینجرس نے گرفتار کرلیا ۔ عمران خان اور موجودہ حکومت کے درمیان جو رسہ کشی چل رہی تھی وہ پاکستان کی داخلی صورتحال کی عکاس تھی ۔ پاکستان میں استحکام کے فقدان کی وجہ سے آج وہ ملک انتہائی نامساعد اور مشکل حالات کا شکار ہے ۔ ملک میںداخلی صورتحال اس حد تک ابتر ہوچکی ہے کہ وہاں قانون یا آئین نام کی کوئی شئے دکھائی ہی نہیں دیتی ۔ وہاں کے کام کاج ایسا لگتا ہے کہ محض اڈھاک بنیادوں پر چل رہے ہیں اور انہیں چلانے والا کوئی ذمہ دار شخص یا ادارہ موجود نہیں ہے۔ آپسی اختلافات اور سیاسی مخالفت کو شخصی دشمنی کی شکل دیتے ہوئے بھی حالات کو بگاڑ دیا گیا ہے اور انتہائی ابتر کیفیت کا شکار کردیا گیا ہے ۔ پاکستان میں جو مہنگائی کی صورتحال ہے اور معیشت جوتباہی کے دہانے پر پہونچ چکی ہے اور عوام محض دو وقت کی روٹی کیلئے مشکلات وپریشانیوں کا شکار ہیں ان کی توجہ ہٹانے اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے حکومت کوئی ذریعہ تلاش کر رہی تھی اور عمران خان کی گرفتاری کی شکل میں اسے یہ ذریعہ دستیاب ہوگیا ۔ شہباز شریف نے جس وقت پاکستان کی وزارت عظمی سنبھالی تھی اس وقت یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ وہ چونکہ پنجاب کے چیف منسٹر رہ چکے ہیں اس لئے انہیںانتظامی امور کا بہترین تجربہ ہوگا ۔ وہ سنجیدگی کے ساتھ پاکستان کے داخلی حالات اور خاص طور پر ملک کی معیشت کوسدھارنے کیلئے موثر اقدامات کریں گے تاہم شہباز شریف کی حکومت انتہائی نا اہل ثابت ہوئی ۔ ان کے دور میںحالات بہتر ہونے کی بجائے مزید ابتر ہی ہوتے گئے ہیں اور حکمرانوں کی نا اہلی اور لاپرواہی کے نتیجہ میں پاکستانی عوام کی اکثریت انتہائی مفلوک الحالی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ اشیائے ضروریہ کی جو قیمتیں ہیں وہ بھی عام آدمی کی پہونچ و رسائی سے باہر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔
اب سابق وزیر اعظم کی جو گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے اس نے سارے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ عمران خان کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عوام نے فوجی تنصیبات میں گھسنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ حکومت کو حالات کو قابو میں کرنے کیلئے کئی شہروں اور ٹاونس میںفوج کو متعین کرنا پڑا ہے ۔ عمران خان ملک میں اصلاحات لانے کی جو باتیں کیا کرتے تھے اور اپنے دور میں انہوں نے حتی المقدور جو کوششیں کی تھیںان سے ایسا لگتا ہے نہ صرف پاکستان کے موجودہ حکمران خوش نہیں ہیں بلکہ کچھ بیرونی طاقتیں بھی ہیں جو چاہتی ہیں کہ پاکستان کے حالات بہتری کی سمت آنے نہ پائیں۔ جس وقت عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ شکست سے دوچار کیا گیا تھا اس وقت سے ہی وہ کہتے آرہے ہیں کہ امریکہ اور کچھ دوسری طاقتیں انہیںاقتدار سے بیدخل کرنا چاہتی ہیں اور بیرونی سازش کے تحت ہی ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے ۔ حالانکہ حکومت اور حکمران جماعتیں اس کی تردید کرتی رہی ہیں لیکن اب جس طرح سے عمران خان کو گرفتار کیا گیا ہے وہ ان کے الزامات کو تقویت دینے کیلئے کافی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ عمران خان قانونی مقدمات میں مطلوب رہے ہوں لیکن جو انداز اور طریقہ کار ان کی گرفتاری کیلئے اختیار کیا گیا ہے وہ پاکستان کے غیر منظم انداز حکمرانی اور اڈھاک انداز کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے ۔ یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہاں شخصی عناد اور مخالفت کو انتہاء درجہ کی دشمنی تک پہونچا دیا جاتا ہے ۔
جہاں تک دو علیحدہ سیاسی جماعتوں کا سوال ہے تو ہر ایک کا نظریہ مختلف ہوتا ہے ۔یہ فطری بات ہے ۔ تاہم ایک قانونی اور آئینی نظام ملک میں ہونا بہت ضروری ہے جو پاکستان میں بالکل بھی نظر نہیں آتا ۔ قانون اور آئین کے نام پر حکمرانوں کی خواہشات کی تکمیل کی جاتی ہے ۔ ان کے ہمنواء اور اقرباء کو نوازا جاتا ہے ۔ عوام کو حالات کی مار سہنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے تو پھر ملک کا شیرازہ بکھرجانے کے اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے ۔ جو حالات وہاں پائے جاتے ہیں وہ پاکستان کے مستقبل کیلئے بھی سوالیہ نشان پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں‘ سیاسی و فوجی اداروں اور عوام کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے ۔