عمرہ کے بعد مدینہ منورہ میں شہادت ‘ قابلِ رشک !

   

ڈاکٹر حافظ سید شاہ خلیل اللہ اویسؔ بخاری
روئے زمین میں سب سے افضل ترین خطہ ’’مدینہ منورہ ‘‘ ہے جس میں حضور اکرم ﷺ آرام فرما ہیں، آپ کا وجود بابرکت جس مقام پر قیام پذیر رہا وہ مقام ساری کائنات سے افضل ہے۔ اللہ عز وجل نے سورۃ البلد میں قسم کھاکر فرمایا : ’’مجھے اس شہر کی قسم در حالانکہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہے‘‘۔شہر مدینہ افضل ترین شہر ہے،کیونکہ وہاں مزارِ مصطفیٰ ﷺ ہے،جہاں صبح و شام ستر ستر ہزار فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔مدینے کی زمین کا وہ مبارک حصّہ جس پر رسولِ انور، مدینے کے تاجور ﷺکا جسمِ مبارک تشریف فرما ہے،وہ ہرمقام حتی کہ خانہ کعبہ،بیت المعمور،عرش وکرسی اور جنت سے بھی افضل ہے۔مدینے منورہ کی حاضری، اس کا سرور،اس کا احساس،اس کا خیال ایسا ہے کہ ذہن میں آتے ہی عاشقان رسول اکرم ﷺ کی آنکھیں بہنے لگتی ہیں۔ شہر حیدرآباد کا ایک قافلہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد ، اپنے گناہوں کو حلق و قصر کے ذریعہ دور کرکے ، پاک و صاف ہوکر سوئے طیبہ رواں دواں تھا ، کرم بالائے کرم کہ وہ میدانِ بدر اور شہدائے کرام (جن کے اسمائے مبارک کا ورد کرنا دافعِ رنج و بلا ہے) کی مزارات کی زیارت کے بعد مدینہ پاک سے قریب المفرحات منطقۃ میں ایک شدید حادثہ میں شہید ہوگئے۔ یقیناً یہ حادثہ ایک دلوں کو دکھانے والا ہے۔
شہر مدینہ منورہ کی فضیلت و عظمت میں آقا کریم ﷺ نے مختلف مواقع اور احادیث میں تذکرہ فرمایا ہے کہ ’’میرا کوئی اُمتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا، مگر میں قیامت کے دن اس کاشفیع(یعنی شفاعت کرنےوالا) ہوں گا۔ (مسلم) مسلم شریف کی حدیثِ پاک میں فرمایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے،مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ، مگر اس پر دو فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ’’مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں میں فرشتے ہیں،اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے‘‘۔(بخاری) یعنی کہ مدینہ پاک کو اللہ عزوجل فرشتوں کے ذریعہ اپنی حفظ و امان میں رکھا ہے۔
پھر آقا کریم ﷺ نے فرمایا: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(سب پر غالب آئے گی) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، یہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی، جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔ (صحیح بخاری)آقا کریم ﷺ نے فرمایا’’ مسجد نبوی شریف میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ)
صرف نماز ہی نہیں بلکہ مدینہ منورہ میں کیا جانے والا ہرعمل ایک ہزار کے برابر ہے۔ شیخِ محقق علامہ عبد الحق محدثِ دہلوی ؒ جذب القلوب میں روایت فرماتے ہیں کہ ’’جب کوئی مسلمان زیارت کی نیت سے مدینہ منورہ آتا ہے تو فرشتے رحمت کے تحفوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔ اور خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔ (جذب القلوب)
کئی احادیثِ مبارکہ میں ارشادِ حبیب کبریا ﷺ ہے کہ جو کوئی میرے شہر میں فوت ہوسکتا ہے وہ یہیں مرے ، کیونکہ میں اس کی شفاعت کروں گا ، اس کے حق میں گواہی دوں گا۔ تو کسی حدیث مبارک میں فرمایا گیا کہ جو کوئی میرے قبر کی زیارت کی اس پر میری شفاعت واجب ہے ۔ (طبرانی) تو کہیں فرمایا کہ جو کوئی میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے جو مجھے اس کا درود پہنچاتا ہے اور یہ درود اس کے دنیا و آخرت کے معاملات کو کفایت کر جاتا ہے اور میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہ اور شفیع ہوں گا۔
اس کے علاوہ جو لوگ مدینہ پاک سے متعلق برائی کا ارادہ کرتے ہیں اس کیلئے یہ وعید ملتی ہے کہ ’’جو شخص اس شہر والوں (یعنی اہل مدینہ) کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے (دوزخ میں) اس طرح پگھلائے گا جیسا کہ نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔‘‘ (مسلم) حضور اکرم ﷺ کے شہر دلنواز مدینہ منورہ کے رہنے والوں کا ادب و احترام بھی آپ ﷺ کی نسبت و تعلق کی وجہ سے لازم ہے جو ایسا نہیں کرے گا وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’ایمان سمٹ کر مدینہ طیبہ میں اس طرح داخل ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں داخل ہوتا ہے۔‘‘
اس ضمن میں ہمیں اس بات کو بھی یاد رکھنا ہوگا یہ لوگ جو اس حادثہ میں فوت ہوئے ہیں وہ شہدا کہلاتے ہیں۔ شہید کون ہوتے ہیں؟ کوئی شخص قیامت سے پہلے جزاء کے تحت جنت میں نہیں جا سکتا سوائے شہید کے ۔جب کسی نیک مرد کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس نیک مرد کی قبر میں جنت کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس سے وہاں کی ہوا آتی ہے اور صاحب قبر دیکھتا ہے مگر وہاں داخل نہیں ہوسکتا۔ صرف شہد ہی ہیں جن کی روحیں سبز پرندوں کے جسم میں وہاں جاتی ہیں اور وہاں کے رزق سے استفادہ کرتی ہیں۔ اسی لئے اُنہیں شہید کہا جاتا ہے یعنی قیامت سے پہلے جنت میں موجود ہونے والا۔
حدیث پاک میں ہے کہ شہادت قرض کے سواء تمام گناہ مٹادیتی ہے اور حدیث پاک میں ارشاد مبارک ہوتا ہے کہ تین شخص جنت میں پہلے جائیں گے۔ (۱) شہید۔ (۲) بھیک سے بچنے والا عیال دار (۳) فرمانبردار غلام۔
حضور نبی کریم ﷺنے شہید کی چھ خصوصیتیں بیان فرمائی ہیں۔ (۱)  اس کی پہلی ہی بار میں مغفرت کر دی جاتی ہے۔ (۲) اسے اس کا جنتی مقام دکھا دیا جاتا ہے۔ (۳) اسے عذاب قبر نہیں ہوتا۔ (۴) قیامت کے دن گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا۔ (۵) اس کے سر پر وقار کا تاج ہوگا جس کا ایک یاقوت ساری دنیا سے بہتر ہوگا اور (۷۲) حوریں اس کے نکاح میں دی جائیں گی۔ (۶) وہ اپنے (۷۰) قرابت کی سفارش کرے گا۔
شہادت دو قسم کی ہوتی ہے ، ایک جہری اور ایک سری شہادت۔جو عام جہاد بالکفار ہوا کرتا ہے اور اس میں شہید ہونے والوں کو شہید حقیقی کہا جاتا ہے ان کو غسل وکفن سے مستثنی قرار دیا گیا، مگر جو لوگ پانی میں ڈوب کر فوت ہوجائے ، کسی آسمانی آفت میں انتقال کرجائے ، آگ میں جل کر فوت ہوئے ہوں ، ہیضہ ، طاعون ، مسافر کا سفر میں انتقال کرجانا ، پیٹ کے درد میں مرنے والا ، حاملہ خاتون کا دورانِ حمل فوت ہونا، کسی موذی جانور کے کاٹنے سے فوت ہوا ہو ، اِن میں فوت ہونے والے کو شہید سری یا حکمی کہا جاتا ہے۔ ان حضرات کو غسل و کفن وغیرہ عام مرحومین کی طرح دیا جائے گا۔ ان حضرات کے بارے میں بدگوئی کرنا یا ان کے شہادت کو ماضی کے گناہوں سے جوڑنا خلاف شرع ہے۔
عزیزان محترم! ہم اپنا محاسبہ کریں ، یہ ہمارے لئے عبرت و نصیحت اور محاسبہ کا موقع ہے کہ زندگی بہت مختصر ہے ، اس کی تیاری کرنی ہے اور موت کسی کی عمر اور جنس دیکھ نہیں آتی بلکہ وقتِ متعین پر آجایا کرتی ہے اور اس کے علاوہ اس مختصر زندگی کو اختلافات کی نذر کرنے کی بجائے محبتوں کا پرچار کریں اور لوگوں میں الفتوں اور محبتوں کو عام کیا کریں۔
جاری کردہ: شعبۂ نشر و اشاعت ابوالفداء اسلامک ریسرچ سنٹر