عندلیب گلشن نا آفرید؟

   

انیس عائشہ
محترم انور معظم (مرحوم) کا نام والدین نے بہت شوق سے اور بامعنی رکھا ہوگا جو کہ مقبول بارگاہ ہوا اور اسم با سمیٰ ثابت ہوا۔انور = بہت روشن – نورانی بہت چمکیلا،معظم = بزرگی دیا گیا – تعظیم کے قابل۔دنیائے اسلامیات و ادب میں روشنی بکھیر کر نکھار کر اپنے آپ کو تعظیم اور بزرگی کے لائق بناکر یہخاموش فلاسفر اپنے مالک حقیقی سے جاملا تین، چاردن انتظار کے بعدموت آگئی کہ یار کا پیغام آگیا۔ یا پھر بقول فانی۔
فصل گل آئی یا اجل آئی کیوں در زنداں کھلتا ہے
کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
اللہ پاک اپنے عزیز بندوں کو انتخاب کر لیتے ہیں جو اس کی تعلیم کو تقسیم کریں اور تحقیق و دلائل اور تدبّر کے ساتھ عام کریں۔ بیدار ذہن اس انعام کو قبول کر کے اپنا تن من دھن اس میں لگا دیتے ہیںاور مقبول بارگاہ ہو جاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں جو غالبیات پر کتاب لکھی، اگر چہ غالب کے لئے لکھا Nightingale of an Uncreated Garden: Ghalib’s Intellectual Concerns
ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ انور معظم خود اپنے مزاج۔ تحقیقات تخلیقات۔ تقاریر اور تحریروں کے ذریعہ خود عندلیب گلشن نا آفریدہ ہو گئے۔ انے والا وقت یہ ثابت کر دے گا۔ بچے دیکھتے ہی رہ گئے اور چشم زدن میں سانس واپس نہیں آئی انا للہ وانا الہ راجعون۔
مولانا آزاد نے بمبئی سے احمد نگر قلعہ تک کے سفرمیں لکھا ہے ” اسٹیشن سے قلعہ تک کوئی موڑ ہی نہیں ملا سوچنے لگا کہ مقاصد کے سفر کا بھی یہی حال ہے جب قدم اٹھا یا تو پھر کوئی موڑ نہیں۔ اگر مڑناچاہیں تو صرف پیچہیکی طرف جا سکتے ہیں لیکن پیچہے مڑنے کی راہ یہاں پہلے ہی سے بند ہو جاتی ہے”۔علامہ اقبال سے خودی اور خود شناسی کا سبق سیکھ کر اپنی قابلیت کو بروئے کار لا کر حقیقتکا عرفان حاصل کر لیا تھا۔ متانت و سنجیدگی اور سعادت مندی جیسے جو ہرات سے آراستہ ہو کرہر جزبہ کا اظہار نہایت شائستگی سے کیا ہے۔ فن کار – فن کار کی موت – اجنبی – نقش فریادیشہکار نظمیں ہیں۔ انور معظم دو ستوں کے معاملے میں بھی بہت محتاط تھے لیکن شاگرد اور مداحوں کا ایکقافلہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ ان میں قابل ذکر ڈاکٹر سلیمان صدیقی سابق وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی جو جان نثار – خدمت گزار – عاشق زار اور عقیدت مند ہیں۔ اپنی خرابء صحت کے باوجود دور دراز سے آجاتے اور گھنٹوں بیٹھے رہتے۔ اس وقت اپنے آپ کو یتیم اور لاوارث محسوس کار رہے ہیں۔اکلوتے خوش نصیب بیٹے اشہر فرحان کے کیا کہنے۔ دیکھتے ہی سمجھ میں آجائے کہ کس باپ کا بیٹا ہے۔وہی انداز وہی رکھ رکھاؤ۔ متانت – ذہانت – سلیقہ ۔ ادب ۔ جان نثاری اور مہمان نوازی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ جس طرح ماں باپ کی خدمت کی ہے وہ قابل تقلید ہے گوناگوں مصروفیات کے باوجود بیمار باپ کو دیکھنا ہی جان لیوا اور صبر آزما کام ہے۔ یہ لڑکا اس میں صد فی صد پورا اترا ہے۔ باپ کے سائے – شفقت اور دعاؤں سے محرومی کا احساس فرحان کے چہرہ اور آنکھوں میں عیاں ہے۔ اللہ انہیں صبر جمیل عطا کرے اور یہ خلا جو دینی اور دنیاوی زندگی میں ہو گیا ہے اسے پر کرنے کی سعادت عطا کرے۔ ایسی محرومی کے وقت ہمتیں پست ہو جاتی ہیں۔ محرومی کا احساس بڑھنے لگتا ہے اللہ بچوں کو فرحان کے زیر سایہ وہ تمام خوبیاں عطا کرے جس کا خواب انور صاحب نے دیکھا تھا۔حمیرا جو اپنی خاندانی شائستگی۔ خدمت گزاری ۔ مہمان نوازی ساتھ لائیں تھیں اس پر جیلانی بانوکی رفاقت نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا اور اس گھر کو ایک مثالی نمونہ بنا دیا۔ انتہائی خوش اسلوبی سے ساس ۔ سسر ۔ شوہر ۔ بچوں اور گھر کے تمام امور کی دیکھ بھال میں اپنے آپ کو وقف کر دیا ہے۔ انتظامی صلاحیت بدرجہ کمال ہے۔(جو ذرّہ جس جگہ وہیں آفتاب ہے)۔ رجا ۔ رشا اور ریّان کو دیکھ کر یاد آرہا ہے۔
وائے گل چیں اجل سے کیسی نادنی ہوئی
پھول وہ توڑا بھر میں ویرانی ہوئی
بچے محسوس کر رہے ہیں کہ واقعی گھر میں اور زندگیوں میں کوئی بڑی کمی آگئی ہے زبان حال سے کہ رہے ہیں۔تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا گھر مرے اجداد کا سرمایہ عزّت ہوا۔انور معظم کے “فنکار کی موت” میں جو زندگی کا فلسفہ پیش کیا ہے وہ خوب سے خوب ترہے۔ بار بار غور کرنے کے قابل ہے۔ شروع میں لکھا ہے
راہ کا اکر دیا بجھ گیا ہیروشنی راہ میں کھو گئی ہے
ایک پل کے لئے زندگی کیزندگی جیسیکم ہوگئی ہے
ایک فنکار کی آگہی کا اک جہاں کل زمن ساتھ دے گا۔دعا ہے۔
مثل ایوانِ سحر مرقدفروزاں ہو تیر
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو تیرا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے