عوامی احتجاج کے باوجود قانون سازی کیوں…؟

   

غصنفر علی خان
شہریت کے بارے میں اچانک کیوں سودی حکومت اپنے خواب غفلت سے بیدار ہوئی ہے اور ایسی قیامت خیز انگڑائی لی کے ملک کے عوام حیران و ششدر رہ گئے۔ کوئی بھی قانون ملک کے عوام کی سہولت کے لیے تدوین کیا جاتا ہے۔ اس قانون کا کیا حشر ہوگا جس میں ملک کے عوام کی مرضی و منشاء شامل حال نہ ہو، آج ملک بھر میں حق شہریت سے متعلق جو نئے قوانین نافذ کئے جارہے ہیں ان کے خلاف ملک کی عوام بلا لحاظ مذہب و ملت علاقہ و ریاست احتجاج کررہے ہیں۔ یہ ایک احتجاج ہی نہیں رہا بلکہ ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس تحریک کی قیادت خود عوام کررہی ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کا اس میں کوئی عمل و دخل نہیں ہے۔ یہ عوام کا جذبہ ہے جو ریالیوں اور احتجاج کے شکل میں ظاہر ہورہا ہے۔ اس کو روکنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب ہوتے ہوئے نظر نہیں آتی۔ لیکن ہٹ دھرمی ہے کہ مودی حکومت اور اس کے وزیر داخلہ امیت شاہ اس احتجاج کو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے حتم کرنا چاہتے ہیں۔ قانون تو عوام کے لیے بنایا جاتا ہے جس قانون کی اگر یہی عوام مخالفت کرے تو اس کو مکمل شکل دینے کی کوئی بھی کوشش بالااخر ناکام ہوتی ہے۔ اتنی سی بات موجودہ حکومت کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ عوام جوق در جوق اس احتجاج میں روز بہ روز شامل ہوتے جارہے ہیں۔ یہ تو عوام کی تحمل پسندی ہے کہ انہوں نے ابھی تک قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا، بلا کسی سیاسی قیادت کے یہ احتجاج ملک کے گوشے گوشے میں ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ ہزاروں کی لاکھوں کی تعداد میں عام آدمی دور دراز کے مقامات سے ان ریالیوں اور احتجاجی جلسوں میں شرکت کررہا ہے۔ جب تحریکیں احتجاج کی شکل اختیار کرتی ہیں تو اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر کسی قیادت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہی حالات ملک بھر میں نہیں جگہ جگہ، شہر شہر، گائوں گائوں و دیہات میں مجوزہ قانون کی مخالفت ہورہی ہے یا تو حکومت خودی اس قانون کو واپس لے یا پھر اس میں عوام کی خواہشات کے مطابق ترمیم کرے۔ حکومت ہٹ دھرمی سے کبھی بھی نہیں چل سکتی جیسا کہ وزیر داخلہ امیت شاہ اس وقت کررہے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ وہ اپنے موقف سے ایک انچ بھی نہیں ہٹیں گے ہٹ دھرمی اور ضد نہیں تو یہ اور کیا ہے۔ ایسے وقت جب کہ ملک بھر میں آگ ہی آگ لگی ہوئی ہے یا تو امیت شاہ اور نریندر مودی کو اس قانون سازی کے عواقب نتائج کے بارے میں وضاحت کرنی چاہئے یا پھر اس کو واپس لینا چاہئے۔ امیت شاہ ہندوستان جیسے ملک کے حالات پر قابو نہیں پاسکے وہ ایک ریاست کے ڈپٹی وزیر داخلہ تھے یہ تو صرف وزیراعظم مودی کی عنایت تھی کہ ملک کے وزیر داخلہ بن گئے۔ وہ قانون جو عوامی نبض کو ٹٹولے بغیر بنایا جاتا ہے۔ اس کا یہی حشر ہوتا ہے۔ ضد اور ہٹ دھرمی قانون سازی کی راہ میں کبھی بھی مددگار ثابت نہیں ہوسکتے۔ عوامی غیض و غضب کے آگے بڑی سی بڑی حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں۔ تو کیوں کس قدر نااندیشی ہورہی ہے کیا حکومت نے امیت شاہ کو یہ ٹھیکہ دے رکھا ہے کہ وہ اپنے غلط فیصلوں سے ملک کی یکجہتی کی دھجیاں اڑائے۔

امیت شاہ تو خیر ایک فرد ہیں اور ہندوستانی قوم ہر فرد سے بالا تر ہے۔ قوم کے افراد کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں کوئی ایک وزیر اہم فیصلے نہیں کرسکتا۔ عوامی احتجاج کا یہ عالم ہے کہ گجرات میں خود امیت شاہ کو عوام میں آکر ذاتی طور پر وضاحت کرنی پڑی کہ شہریت کے حقوق کا قانون کسی فرقہ، طبقہ اور مذہب کے خلاف نہیں ہے۔ وزیراعظم اپنا 56 انچ کا سینہ ٹھوک ٹھوک کر اپنی تقاریر میں کہہ رہے ہیں کہ اس قانون کی وجہ سے مسلمانوں کو بالخصوص کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مسلمان کی بات چھوڑیئے وہ تو ہر حال میں جینا سیکھ چکے ہیں اور ہر بار یہ کہتے ہیں کہ ’’ستم پر ستم کرو ہمیں ڈر کس بات کا ہے‘‘ جب سے بی جے پی کی حکومت اس ملک میں تشکیل پائی ہے اس نے روز اول سے ہی مسلمانوں پر مصائب ڈھانا شروع کردیا ہے۔ ان کی وضع و قطع پر اعتراض ہوتا ہے تو کبھی ان کے نزاعی حالات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کبھی ان سے پاکستان چلے جانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے غرض اس کروڑہا کی آبادی والے مسلم طبقہ کو ہر ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حکمت عملی کے طور پر وزیر اعظم ہند اس قسم کے باتوں پر خاموشی اختیار کرتے ہیں چوں کہ یہ باتیں وہ خود اپنے منہ سے نہیں کہہ سکتے بلکہ اپنی پارٹی کے لوگوں سے کہلواتے ہیں ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے بیانات دینے والوں کے خلاف وزیراعظم خود سخت کارروائی نہ کرے۔ وہ آل انڈیا ریڈیو پر ایک پروگرام ’’من کی بات‘‘ نشر کرتے ہیں لیکن من کی بات تو کبھی نہیں کہی جاتی بلکہ نمائش و دکھاوے کی باتیں اس پروگرام میں کی جاتی ہیں۔ اس دوہرے پن نے ملک کو ایسی صورتحال سے دوچار کردیا ہے کہ ملک کے تمام شہری یکجا ہوکر اور اپنی مذہبی بندشیں توڑکر احتجاج پر اتر آئے ہیں۔ یہ سوال وزیراعظم سے کیا جاسکتا ہے کہ ان کی حکومت آخر کس کے لیے شہریت سے متعلق یہ قانون مدون کررہی ہے جب کہ ملک کی عوام اس کی سخت مخالف ہے اگر ابھی تک بھی حکومت کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوا کہ شہریت ترمیمی قانون کے عوام سخت مخالف ہیں، یہ تو خیر ہے کہ عوام کی مخالفت تشدد اختیار نہیں کررہی ہے۔ آج ہندوستان کے ملے جلے سماج میں آخر وہ کونسا طبقہ ہے جو اس قانون سے مطمئن ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس مخالفت کے باوجود یہ قانون زبردستی عوام پر مسلط کیا جاتا ہے تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔ وہ قانون ہی کیا جس کو ملک کی عوام تسلیم نہیں کرتے۔ قوانین عوام کے تحفظ اور ترقی کے لیے بنائے جاتے ہیں جن کے لیے عوام کی بھرپور تائید بھی چاہئے۔ ایسا قانون جس کے عوام خود مخالف ہوں نافذ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا جو احتجاج تین ہفتوں کے بعد بھی پرامن رہا اس کی مخالفت عوام کو تشدد کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔ اگر آج بھی حکومت اس عوامی احتجاج کو حقائق کے آئینہ میں دیکھے تو اس کو اپنی صورت صاف طور پر نظر آئے گی۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ اتنی ساری بھگدڑ کے باوجود حکومت اس احتجاج کو قبول نہ کرے۔ سب سے نازک مسئلہ تو یہ ہے کہ اس قانون کے خلاف طلباء برادری سخت احتجاج کررہی ہے۔ ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں طلباء اور طالبات یکساں طور پر کھڑے ہوئے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اس احتجاج کا مرکز بنا ہوا ہے اور جامعہ ملیہ کی تائید میں طلباء برادری ایک صف میں کھڑی ہوئی دیکھی جارہی ہے۔ طلباء برادری ہمارے سماج کی ایک اہم ترین طاقت ہے نہ جانے ان میں کون مستقبل کا گاندھی، جواہر لعل نہرو اور ایسے کئی نامور قومی قائدین بنیں گے۔ جامعہ ملیہ کے علاوہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی بھی احتجاج میں شامل ہے۔ ان طلباء پر پولیس ظلم و ستم کررہی ہے۔ یونیورسٹیوں کے کیمپس میں بے جا مداخلت کرکے طلباء و طالبات پر لاٹھیاں برسائی جارہی ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے ہاسٹلس میں گھر کر مارپیٹ کیا جارہا ہے۔ حکومت کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ طلباء برادری پر جاری اس ظلم و ستم کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ یہ ایک ایسی طاقت ہے جو کبھی بھی جوالہ مکھی کی طرح پھٹ پڑھ سکتی ہے۔ بیسوں جامعات میں یہی صورتحال دیکھی جارہی ہے ملک کے کئی چیف منسٹروں نے اس قانون کو نافذ نہ کرنے کا اعلان کیا ہے جن میں بی جے پی کے ہمدرد، بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار بھی شامل ہیں۔ غرض شمال سے لے کر جنوب تک، ایک آگ ہے کہ دہک رہی ہے۔ خاص طور پر مغربی بنگال اور کیرالا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ مغربی بنگال میں تشدد پیدا ہونے کے زیادہ امکانات ہیں چوں کہ وہاں چیف منسٹر ممتابنرجی نے مودی حکومت کو وارننگ دی ہے کہ شہریت ترمیمی قانون ان کی نعش پر سے گزر کر ہی مغربی بنگال میں نافذ کیا جاسکتا ہے۔ جب تک وہ زندہ ہیں تب تک اس قانون کو اپنی ریاست میں لاگو نہیں کریں گی۔ کیرالا کے چیف منسٹر نے بھی صاف الفاظ میں کہا ہے کہ ان کی ریاست میں اس قانون کے نفاذ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اکیلے وزیراعظم مودی اور امیت شاہ وزیر داخلہ کی جوڑی اس قانون کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوگا اور اگر کوشش کی گئی تو بعد ہزاروں برائیوں کے اپنے ملک میں تباہی اور خون خرابہ ہونے کا قوی امکان ہے۔ جتنی جلدی ہوسکے حکومت کو ہوش میں آجانا چاہئے۔ عوامی تحریکیں حکومتوں کو سبق سکھانا جانتی ہیں۔