عوام نظر انداز ‘ گائے پر توجہ

   

Ferty9 Clinic

عوام نظر انداز ‘ گائے پر توجہ
بی جے پی نے ہمیشہ ہی اس ملک میں نفاق کی اور تقسیم پسندانہ سیاست کی ہے ۔ اس نے ہمیشہ ہی اختلافی اورنزاعی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے اپنے لئے سیاسی فائدہ تلاش کیا ہے اور اب تک اس کی یہ کوششیں کامیاب بھی رہی ہیں۔ جب سے زر خرید میڈیا اور غلام ٹی وی اینکرس بی جے پی کے ساتھ ہوئے ہیں اس وقت سے یہ روش مزید بڑھ گئی ہے اور ملک اور ملک کے عوام کو درپیش مسائل کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ حکومتوں کا کام ایسا لگتا ہے کہ محض اختلافی اورنزاعی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے سماج میں تفریق پیدا کرنا اور اس کا سیاسی پھل حاصل کرنا ہی رہ گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں ریاستوں کے عوام اور ان کے مسائل پر کسی کی توجہ نہیں ہے ۔ لوگ بھوک مری کا شکار تک ہونے لگے ہیں۔ عوام کی نوکریاں اور ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں۔ کسان خود کشی کر رہے ہیں۔ صنعتی پیداوار مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے ۔ جی ڈی پی گھٹ گئی ہے ۔ عوام کو رونا سے بچنے کیلئے کوئی مدد نہیں مل رہی ہے ۔ معیشت گرتی جا رہی ہے ۔ سرکاری کمپنیاں اور املاک مسلسل خانگی اداروں اور محض مٹھی بھر حاشیہ بردار کارپوریٹس کو فروخت کی جا رہی ہیں لیکن ان مسائل پر شائد برسوں گذر گئے ہیں ٹی وی چینلوں پر کوئی مباحث نہیں ہوئے ہیں۔ بحث اگر ہو رہی ہے تو گائے کے گوشت پر ‘ تین طلاق پر ‘ لباس پر اور مذہبی شناخت پر یا پھر بالی ووڈ کے ایک اداکار کی خود کشی پر ۔ عوام کو مہنگائی کی جس مار کا سامنا ہے اس کو تو سبھی نے نظر انداز کردیا ہے ۔ عوام کی جیبیں خالی ہیں اور قیمتوں میں اضافہ کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس سب کے باوجود بی جے پی کی ریاستی حکومتیں عوام کو راحت پہونچانے کی بجائے گائے پر توجہ دینے میں مصروف ہیں۔ عوامی سہولت کی جو وزارتیں ہیں ان کی کارکردگی کوبہتر بنانے کی بجائے گائے کابینہ تشکیل دی جا رہی ہے ۔ گئو شالہ کی تعمیر پر بجٹ خرچ کیا جار ہا ہے اور لو جہاد کے نعرے کو ہوا دیتے ہوئے سماج میں تفریق پیدا کی جا رہی ہے ۔ یہ جمہوریت کی دھجیاں اڑانے جیسے عمل ہیں لیکن جمہوریت یا اس کے اقدار یا عوام کو اہمیت دینے کیلئے اب یہ حکومتیں تیار نہیں ہیں۔
مدھیہ پردیش میں کسانوں کی صورتحال انتہائی ابتر ہے ۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت نے جو مخالف کسان اقدامات کئے ہیں ان سے مشکلات میں اضافہ ہی ہونے والا ہے ۔ کسان مسلسل خود کشی کرتے جا رہے ہیں ۔ ریاست میں ملازمتوں کی ضرورت ہے ۔ نوجوان نوکریوں کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ خواتین کے خلاف مظالم میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ دلتوں پر مظالم بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان سارے امور پر توجہ کرنے کی بجائے شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت گائے کابینہ بنانے اور اس کا اجلاس منعقد کرتے ہوئے گائیوں کی فلاح و بہبود پر توجہ دینے میں مصروف ہے ۔ یہ در اصل نفاق کی سیاست ہے ۔ یہ منفی سیاست ہے ۔ اس کو مثبت پالیسی سازی یا مثبت سیاست ہرگز نہیں کہا جاسکتا ۔ یہ عوام کے مذہبا جذبات کے ساتھ استحصال ہے جس کے ذریعہ بی جے پی نہ صرف اپنا اقتدار برقرار رکھنا چاہتی ہے بلکہ وہ یہ پیام بھی دینا چاہتی ہے کہ اگر بھوپال یا دوسرے شہروں میں کورونا کی وجہ سے دوبارہ کرفیو نافذ کیا جاتا ہے تو اسے کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ اس کرفیو سے عوام کو پریشانیاں ہونگی تو اس کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ عوام اپنے مسائل سے خود نمٹنے کی کوشش کریں۔ اس معاملے میں حکومت ان کیلئے کچھ نہیں کرے گی ۔ حکومت صرف گائے کے تعلق سے ہندووں کے جذبات کا استحصال کرے گی اور اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرتے ہوئے اپنا اقتدار برقرار رکھنا چاہتی ہے ۔ عوام کے مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے ہر ممکن ہتھکنڈے بھی اختیار کئے جاتے ہیں۔
اسی طرح ہریانہ کا بھی حال ہے ۔ وہاں حکومت کے اقدامات عوام کو راحت پہونچانے سے زیادہ گائے کے اطراف گھومتے ہیں۔ اترپردیش کا تو حال ہی نرالا ہے ۔ وہاں کے چیف منسٹر ایسا لگتا ہے کہ ایک تیسری ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ وہ اپنے خول سے باہر آکر حقیقی ماحول میں کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔ گئو شالہ کے قیام کو حکومت کا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ ریاست میں خواتین اور لڑکیوں پر ہونے والے مظالم کی انہیں کوئی فکر نہیں ہے ۔ عصمت ریزی و قتل کے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں لیکن ان کو روکنے پر ان کی کوئی توجہ نہیں ہے ۔اس سے یہ تاثر یقین میں بدلتا ہے کہ بی جے پی اور اس کی حکومتوں کے پاس عوام کی فلاح کیلئے کچھ نہیں ہے اور وہ صرف مذہبی جذبات کے استحصال کے سہارے حکومت کرنا چاہتی ہے ۔